عراق (جیوڈیسک) گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین سفارتکار جان کوبس نے متنبہ کیا تھا کہ موصل شہر کو داعش سے واگزار کروانے کے لیے متوقع فوجی کارروائی دنیا میں سب سے بڑے انسانی بحران کا سبب بن سکتی ہے۔
عراق میں کرد فورسز نے موصل شہر پر قابض شدت پسند گروپ ’داعش‘ کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے اور اطلاعات کے مطابق کرد فورسز نے شہر کے مشرقی حصے کے پانچ دیہات کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
امریکہ کی حمایت یافتہ کرد فورسز جنہیں پیش مرگہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اُن کی علاقے میں پیش قدمی مسلسل جاری ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس ’اے پی‘ کے مطابق کرد سکیورٹی کونسل کے بیان میں کہا گیا کہ مزید کئی دیہات کو داعش کے جنگجوؤں سے خالی کروانے کے لیے کوششیں جاری ہیں اور اس کا مقصد دہشت گرد گروپ پر دباؤ بڑھانا ہے۔
پیش مرگہ کے بریگیڈئیر جنرل دیڈوان خورشید توفیق نے کہا کہ موصل کے باہر آپریشن جاری ہے۔
ایک مقامی ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر پیش کیے جانے والے مناظر میں ایک گاؤں سے دھوئیں کے بادل کے علاوہ فوجی گاڑیاں آگے بڑھتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔
کردش سکیورٹی کونسل کے مطابق اب تک 50 مربع کلومیٹر کا علاقہ خالی کروا لیا گیا ہے جب کہ امریکہ کے زیر قیادت اتحاد کی طرف سے اُنھیں فضائی مدد بھی حاصل ہے اور ایسی ہی ایک فضائی کارروائی میں کار میں نصب بم کو تباہ کیا گیا۔
موصل، عراق کا دوسرا بڑا شہر ہے جس پر 2014ء کے وسط سے شدت پسند گروپ داعش نے قبضہ کر رکھا ہے۔
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین سفارتکار جان کوبس نے متنبہ کیا تھا کہ موصل شہر کو داعش سے واگزار کروانے کے لیے متوقع فوجی کارروائی دنیا میں سب سے بڑے انسانی بحران کا سبب بن سکتی ہے۔
انھوں نے متنبہ کیا کہ “موصل میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہو سکتی ہے۔”
عراق پہلے ہی ہنگامی صورتحال کے درجہ تین میں شامل ہے جو کہ بحران کی بلند ترین شرح کو ظاہر کرتا ہے۔
اس وقت اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ایک کروڑ عراقیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ضرورت ہے جن میں 34 لاکھ لوگ وہ ہیں جو 2014ء میں داعش کی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد سے بے گھر ہوئے۔