عراق (جیوڈیسک) عراق میں سیاسی اور سماجی زندگی اور سکیورٹی امور میں ایرانی مداخلت اور کنٹرول اب کسی بھی مخفی نہیں۔ اس مقصد کے لیے بغداد حکومت کو کٹھ پتلی کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے جس میں اکثریت شیعہ جماعتوں کی ہے۔ اس کے علاوہ نجف میں شیعہ فیصلوں کا مرکز بھی اہمیت رکھتا ہے جس کا تہران سے قریبی تعلق ہے۔
عراق میں شیعہ رائے عامہ پر ایران کا کنٹرول مذہبی مواقع کے انتظامات کے ذریعے بڑھایا جا رہا ہے جو محرم اور صفر کے دو مہینوں میں اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ اس دوران دنیا بھر سے لاکھوں شیعہ نجف ، کربلاء ، بغداد اور سامراء میں مذہبی مقامات اور مزارات کی زیارت کرتے ہیں۔
عراق میں ایران کی پولیس کا گشت عراقی ویب سائٹوں پر جاری ہونے والے وڈیو کلپوں میں ایرانی پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کو بڑی تعداد میں اپنی گاڑیوں میں سوار کربلا ، نجف اور بغداد جانے والی سڑکوں پر گشت کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ اقدام ان زائرین کو تحفظ فراہم کرنے کے تحت کیا گیا ہے جو 20 نومبر کو چہلم کے موقع پر خصوصی تقاریب میں شرکت کے لیے کربلاء کی جانب پیدل جا رہے ہیں۔
عراقی سکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ایرانی پولیس کی 50 سے زیادہ گاڑیاں اپنے اسلحے اور سازوسامان کے ساتھ عراقی اراضی میں داخل ہوئیں۔ ایران کے ساتھ سرحد تک پھیلے ان ارکان کی تعیناتی کا مقصد ایرانی زائرین کے بحفاظت کربلاء پہنچنے کو یقینی بنانا ہے۔
علاوہ ازیں ایرانی نیوز ایجنسیوں اور ویب سائٹوں پر جاری تصاویر میں ایرانی حکومت اور نظام سے تعلق رکھنے والی متعدد اعلی شخصیات کو گزشتہ سالوں کی طرح بنا کسی پرٹوکول اور سرکاری پابندی کے ہر جگہ گھومتے پھرتے دیکھا جاسکتا ہے گویا کہ وہ کسی ایرانی صوبے میں موجود ہیں۔
خامنہ ای کا ریلیاں جاری رکھنے کا مطالبہ ایرانی مرشد اعلی علی خامنہ ای نے جعمرات کے روز جاری بیان میں مطالبہ کیا کہ خطرات سے بھرے ہونے کے باوجود ان ریلیوں کو جاری رکھا جائے اس لیے کہ یہ ریلیاں ایران کی بقاء کی ضامن ہیں۔
ایرانی محقق اور امریکا میں ایرانی لابیوں کے مخالف حسن داعی نے “العربیہ ڈاٹ نیٹ” کی انگیرزی اور فارسی ویب سائٹوں پر نشر ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ” ایرانی نظام دنیا بھر میں شیعوں اور اس کے بعد اسلامی دنیا کی قیادت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس واسطے اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ لہذا وہ طاقت کے زور پر عراق میں مسلکی تقریبات اور مواقع بالخصوص چہلم کے انتظامات میں شریک ہو رہا ہے جس کے ذریعے اس کا رسوخ وسیع ہوگا “۔ حسن داعی کے نزدیک ” عراق پر قبضے کے 13 برس بعد ایران طاقت کے زور پر قدس فورس اور تہران نواز پاپولر موبیلائزیشن ملیشیاؤں کے ذریعے عسکری اور سیاسی طور پر مداخلت کر رہا ہے”۔
“ایرانی شیعہ ہلال” کا منصوبہ حسن داعی نے مزید بتایا کہ “ایرانی نظام یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے عسکری اور سیاسی رسوخ سے عنقریب عالم اسلام پر کنٹرول کا خواب پورا کرلے گا”۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے زیر انتظام قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ ” سن 40 ہجری میں حضرت علی )رضی اللہ عنہ) کی شہادت کے بعد بنو امیہ کے 80 سالہ ، بنو عباس کے 600 سالہ اور عثمانیوں کے 400 سالہ مدت حکومت کے دوران شیعوں کو اپنے وجود اور عقائد کے اظہار کی جرات حاصل نہیں تھی۔ اب ایران کی قیادت میں شیعہ مسلک کا زندہ ہونا ایران کو سیاسی ، اقتصادی اور سکیورٹی پہلو سے قوت فراہم کر رہا ہے”۔
حسن داعی کا کہنا ہے کہ ” عراق میں ایران کی مداخلت اور وسیع مسلکی رسوخ کے باوجود شیعہ عوام کی اکثریت اور نجف میں بعض مذہبی مراجع ایرانی کنٹرول اور رسوخ کے آگے نہیں جھکتے۔ وہ عراق میں ایران کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں”۔
ایرانی محقق کے مطابق ایرانی ادارہ “اعمار العتبات” جس کی نگرانی قدس فورس کے ایک کمانڈر حسن بلارک کے پاس ہے.. عراق میں پورے زوروں کے ساتھ بھاری رقوم خرچ کر کے ہوٹلوں ، تجارتی مراکز کی تعمیر ، مذہبی کمیٹیوں کی تاسیس اور مذہبی شخصیات کی بھرتی میں سر گرم ہے۔
علاوہ ازیں ایرانی نظام اسی سے ملتے جلتے اداروں کے ذریعے مختلف عرب ممالک میں “مطلق ولایت فقیہ” کی سوچ کی ترویج کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ دنیا بھر میں شیعوں کی قیادت کے ذریعے خطے میں ایرانی توسیع کے مںصوبے کے لیے شیعہ رائے عامہ کو اپنے حق میں کر رہا ہے۔