عراق (اصل میڈیا ڈیسک) عراق میں پارلیمانی الیکشن کے تین ہفتوں بعد بھی مشرق وسطیٰ کے اس ملک میں سیاسی بحران کی صورت حال برقرار ہے۔ تازہ پیش رفت میں ایران نواز شیعہ ملیشیا نے فراڈ کے الزامات عائد کرتے ہوئے تشدد کی دھمکی دے دی ہے۔
دس اکتوبر کو ہوئے الیکشن میں عراق کی شیعہ کمیونٹی کی نمائندہ سیاسی جماعت فتح الائنس پارلیمان میں اپنی دو تہائی نشستوں پر شکست سے دوچار ہوئی تھی۔
پاپولر موبالائزئشن فورسز نامی پیرا ملٹری گروہ کی نمائندہ اس ایران نواز الائنس کی شکست کے بعد اس نے الیکشن میں فراڈ کے الزامات عائد کر دیے تھے۔ گزشتہ الیکشن میں اس الائنس نے تین سو انتیس نشستوں والی پارلیمان میں اڑتالیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اس بار غیر سرکاری نتائج کے مطابق یہ صرف سولہ نشستوں پر کامیاب ہو سکی۔
تازہ پیشرفت میں اس الائنس کی حامیوں نے دارالحکومت بغداد کے انتہائی سکیورٹی والے گرین زون کے باہر دھرنا دے رکھا ہے اور دھمکایا ہے کہ اگر ان کے تحفظات دور نہ کیے گئے، تو وہ تشدد پر بھی اتر سکتے ہیں۔
تاہم یہ شیعہ الائنس الیکشن میں دھاندلی کے اپنے دعووں کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکا سمیت متعدد غیر ملکی مبصرین نے عراق پارلیمانی انتخابات کو شفاف اور غیرجانبدار قرار دیا تھا۔
عراق کی چالیس ملین آبادی میں شیعہ آبادی کا تناسب اکثریت میں ہے۔اس الیکشن میں سب سے زیادہ کامیاب مقتدی الصدرکا شیعہ بلاک رہا، جس نے تہتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ مقتدی الصدر ایران کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں جبکہ وہ ملک میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف ہیں۔
اس الیکشن میں سنی سیاسی گروہ تقدیم پارٹی نے سینتیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اس الیکشن میں دوسرا بڑا سیاسی اتحاد بن کر ابھرا۔ تیسری پوزیشن سابق وزیر اعظم نوری المالکی کے اسٹیٹ آف لاء بلاک کو ملی۔ مالکی کے سیاسی اتحاد کو پینتیس نشستیں ملیں۔
جرمن شہر بون میں واقع CARPO ريسرچ سینٹر سے وابستہ تامیر بداوی کے بقول فتح الائنس اپنے ان حربوں سے الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں ہے اور اسی لیے باضابطہ اور سرکاری نتائج میں تاخیر ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مرتبہ الیکشن میں نہ صرف ایسی پارٹیوں کو شکست ہوئی، جن کی ایران کے ساتھ ہمدردیاں ہیں، بلکہ ایسی پارٹیاں بھی کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکیں جنہوں نے خود کو مکمل طور پر ایران سے دور کر لیا ہے۔
بداوی کے بقول اس مرتبہ ووٹرز نے ایسے نمائندوں کو منتخب کیا ہے، جو عراق کی داخلی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اعتدال پسند نظریات کے حامل ہیں۔ ان کے مطابق عراقی عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے، جو ملک کے سیاسی استحکام اور مستقبل کے لیے ایک اچھی نوید ہے۔
تاہم دوسری طرف عراقی الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ وہ فراڈ کی شکایات کی مکمل چھان بین کے بعد حتمی نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ دریں اثنا کچھ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فتح الائنس کی طرف سے دھمکیاں اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتیں جب تک یہ سیاسی اتحاد مقتدی الصدر کے بلاک کے ساتھ کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ جاتا۔