واشنگٹن (جیوڈیسک) داعش کے لڑاکا شام اور عراق بھر کے شہروں اور قصبوں سے نکلنے کی راہ اپنا رہے ہیں۔ تاہم، پیچھے وہ خونریزی کی داستانیں چھوڑ رہے ہیں، جس بنا پر مقامی معیشتوں کو بہت نقصان پہنچا اور لوگ تباہ حال اور صدمے کی کیفیت میں ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے اس ہفتے ایک قصبے کا دورہ کیا جو گذشتہ ہفتے تک داعش کے زیر قبضہ تھا، جب عراقی افواج نے لڑاکوں کو دھکیل دیا۔
تیل سے مالا مال القیارہ کا قصبہ موصل کے جنوب میں 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جہاں دو برس سے زیادہ عرصے تک داعش کی عملداری رہی ہے۔
مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ داعش کے شدت پسندوں نے شکست سے پہلے یہ بات یقینی بنائی کہ القیارہ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کیا جائے۔ گھروں کو جزوی طور پر یا مکمل طور پر تباہ کیا گیا۔ تیل کے کنوؤں کو نذر آتش کیا گیا، جس سے معیشت اور ماحولیات کو انتہائی شدید نقصان پہنچا۔ داعش نے تیل کے کم ازکم 10 کنوؤں کو آگ لگائی۔
حسین جاصم ’القاریہ‘ کے مکین ہیں۔ عراقی معیشت کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’داعش نے تیل کے کنوؤں کو ہدف بنایا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ عوام کے پیسے کا معاملہ ہے‘‘۔ عراقی فوجی اہل کاروں کے مطابق، شہر کا فوجی اڈا بھی تباہ کیا گیا۔
کرنل کریم رضوان عراقی فوج کے ایک افسر ہیں، جنھوں نے داعش کے خلاف فوجی کارروائی کی قیادت کی تھی۔ بقول اُن کے، ’’یہ اڈا اب قابل ِاستعمال نہیں رہا۔ داعش نے اس اڈے کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے‘‘۔
القیارہ کا فضائی اڈا عراقی فضائی فوج کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، جس پر جون 2014ء میں داعش نے قبضہ کر لیا۔ سنہ 2003میں امریکہ کی جانب سے مداخلت کے بعد کئی برس تک امریکی افواج یہ اڈا استعمال کرتی رہی ہیں۔
رضوان نے کہا کہ فضائی اڈے کے مرمت کے لیے بہت وقت اور بڑی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔
یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ داعش کے زیر قبضہ رہنے کے دوران اُن کا استحصال کیا گیا اور اُنھوں نے نفسیاتی زیادتی جھیلی۔
جاصم کے بقول، ’’ہم نے اُنھیں بہت سارے پیسے دیے۔ ہمیں رقوم دینا پڑتی تھیں یا پھر ہمیں قتل کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘‘۔