لندن (جیوڈیسک) سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عراق میں جنگ میں شمولیت غلطی تھی اور اس معاملے پر پارلیمنٹ سے بھی کئی حقائق چھپائے گئے تھے لیکن جنگ میں شمولیت نیک نیتی سے کی تھی‘جان چلکوٹ کمشن کی رپورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سابق برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کم از کم عراق جنگ کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ آج وہاں ایک منتخب حکومت ہے جسے عالمی برادری عراقی عوام کی جائز نمائندہ تسلیم کرتی ہے۔
برطانیہ کے سابق وزیرِاعظم ٹونی بلیئر نے 13 سال قبل عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت سے متعلق اپنے فیصلے پر معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر پارلیمان کو گمراہ نہیں کیا تھا۔ لندن میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق برطانوی وزیرِاعظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے 2003ء میں امریکہ کی زیرِ قیادت عراق جنگ میں شمولیت کا فیصلہ پوری”نیک نیتی” سے کیا تھا۔ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق انٹیلی جنس معلومات میں دانستہ کوئی گڑبڑ نہیں کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور مغربی طاقتوں کو اس وقت کے عراقی صدر صدام حسین سے کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں تھا۔ لندن میں تحقیقاتی کمشن کے سربراہ اور سابق برطانوی اعلیٰ سرکاری عہدیدار جان چلکوٹ نے کمشن کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2003ء میں عراق میں تخفیفِ اسلحہ کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے تمام تر کوششیں بروئے کار آنے سے قبل ہی جنگ میں کودنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا جو بلاجواز تھا۔ اس جنگ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ صدام کے پاس تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے۔ ٹونی بلیئر نے بش کا ساتھ دینے کیلئے اپنی کابینہ کو اندھیرے میں رکھا۔ کمشن نے عراق میں برطانوی فوج کی کارروائیوں پر اس وقت کے سیاست دانوں، انٹیلی جنس حکام، سفارت کاروں اور فوجی جنرلوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ عراق میں فوجی مداخلت کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں کئی سنگین غلطیاں تھیں جس کا خمیازہ عراقی عوام کو بھگتنا پڑا۔
وسطی لندن میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کمشن کی رپورٹ پر اپنے ردِ عمل میں سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر نے کہا کہ وہ عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت کے فیصلے پر پہلے سے کہیں زیادہ “دکھی، پشیمان اور معافی کے طلب گار” ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ ان کی زندگی کے چند مشکل ترین فیصلوں میں سے تھا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس جنگ میں اپنی جانیں دینے اور زخمی ہونے والے برطانوی شہریوں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔
ٹونی بلیئر کا کہنا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت کے فیصلے کو عوامی حمایت حاصل نہیں تھی لیکن انہوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیوں کہ ان کے خیال میں یہی صحیح راستہ تھا اور اگر جنگ نہ چھیڑی جاتی تو “ہمیں اور پوری دنیا کو آگے چل کر اس کی کہیں زیادہ بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی۔”سابق برطانوی وزیرِاعظم نے اس تاثر کو رد کیا کہ عراق جنگ کے نتیجے میں دنیا میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ اگر 2003ء کے بعد بھی صدام حسین کو اقتدار میں رہنے کا موقع دیا جاتا تو وہ ضرور دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیتے۔
برطانیہ کے جنگ مخالف گروپ نے جنگ عراق میں برطانیہ کی مداخلت کے بارے میں سر جان چلکوٹ کی رپورٹ پڑھے جانے کے موقع پر لندن میں مظاہرہ کیا اور ٹونی بلیر پر ایک جنگی مجرم کی حیثیت سے مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کیا۔ ایرانی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سٹاپ وار کولیشن کی اپیل پر کیا گیا۔ بعض مظاہرین ٹونی بلیئر کے ایسے ماسک پہنے ہوئے تھے جو خون میں آلودہ تھے۔ مظاہرین نے اپنے اختتامی بیان میں جنگ عراق سے متعلق حقائق برملا کئے جانے پر تاکید کی۔ سرکاری انکوائری کمشن کے سربراہ سر جان چلکوٹ نے کہا کہ صلح کے امکان کے باوجود حکومت برطانیہ نے2003 میں عراق پر جارحیت میں شرکت کی، جو انتہائی نامناسب اقدام ہے۔