عراقی بحران کا سبب، وزیراعظم مالکی کی فرقہ ورانہ پالیسیاں ہیں: امریکی حکام

Iraqi Crisis

Iraqi Crisis

بغداد (جیوڈیسک) عراق میں سنی شدت پسند تنظیم اسلامک سٹیٹ اِن عراق اینڈ شام کی جانب سے کئی اہم عراقی شہروں پر قبضے کو عراق کی سالمیت اور وجود کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس عسکری تنظیم کی پیش قدمیوں کو اقوام متحدہ نے خطرناک قرار دیتے ہوئے انہیں عراق کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ قرار دیا ہے۔

امریکی حکام عراقی صورتحال کی وجہ وزیراعظم نوری المالکی کی پالیسیوں کو قرار دیتے ہوئے انہیں ملک کی سنی اقلیت کے ساتھ ہونے والی مسلسل تفریق کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔

امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے بھی جمعرات کے روز اسی تناظر میں کہا کہ وزیراعظم نوری المالکی کو صرف شیعہ شہریوں کی بجائے تمام عراقیوں کا رہنما ہونا چاہیے۔ انہوں نے نوری المالکی سے ٹیلی فون پر بات چیت میں زور دیا کہ عراق کی بقا اور سالمیت کے لیے ضروری ہے کہ وہاں تمام باشندوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے اور انہیں معاشرتی دھارے میں شامل کیا جائے۔

امریکا کے اعلیٰ ترین فوجی عہدیدار جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بھی عراقی حکومت پر فرقہ واریت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بغداد حکومت عوام کو جوڑنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔

سابق امریکی فوجی کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بھی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری نوری المالکی پر عائد کی۔ جنرل پیٹریاس نے لندن میں ایک کانفرنس سے خطاب میں کہا، اگر عراق میں تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان سیاسی مفاہمت نہیں ہوتی، تو اس بحران میں کسی ایک فریق کی حمایت سے فرقہ ورانہ خلیج اور بڑھ جائے گی۔