لُوجی آگئی وہ گھڑی جس کا انتظار تھا۔سیاست دانوں،بیورو کریٹس،اساتذہ کے بعد اب صحافیوں کی بھی کسی نہ کسی بہانے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اِس ضمن میں عرفان صدیقی کی گرفتاری ایک ابتدا ہے۔ دیکھیئے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ممتازصحافی، معروف کالم نویس، تجزیہ نگار،سابق مشیر وزیراعظم پاکستان عرفان صدیقی کی گرفتاری کا معاملہ کچھ اِس طرح سے ہے کہ اور کچھ نہ ملا تو” کرایہ داری ایکٹ ”کی خلاف ورزی پر ہی پکڑکر ناحق پابند سلاسل کردیا۔جس پر سیاسی سماجی وصحافتی حلقوں سمیت ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص سراپا احتجاج ہے۔اِسے حکومت کی ایک اوچھی اور بھونڈی حرکت سے تعبیر کررہا ہے۔مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ”یہ جعلی ایف آئی آر ہے،جس میں عرفان صدیقی کی گرفتاری ڈالی گئی ہے،جس گھر کا مقدمہ بنایا گیا ہے ،وہ عرفان صدیقی کے نام نہیں اور نہ ہی اُس کاالاٹمنٹ لیٹر عرفان صدیقی کے نام ہے،عرفان صدیقی کی گرفتاری حکومت وقت کا ایک بلاجواز اوربھونڈااقدام ہے،جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے”۔ممتاز صحافی معروف کالم نویس ،تجزیہ کار ”ارشاد بھٹی” نے ایک نجی چینل کے پروگرام میں حکومت کے اِس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ”حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا”۔ممتاز صحافی،ٰ سینئر کالم نویس ،تجزیہ کار ایاز میر ،سلمان غنی ،خاور گھمن ،نجم سیٹھی،مسعود رضا، مجیب الرحمان شامی، ملک مخمدسلمان بھی اِس حکومتی اقدامات پر خاصے برہم دکھائی دئیے۔
سینئر اینکر پرسن منصور علی خان نے تو باقاعدہ اِس پر مذمتی پروگرام کر ڈالا۔معروف مصنفہ ،اسٹوری رائٹر،ڈرامہ نگار،،ناول نگار،کالم نویس” صبا ممتاز بانو” نے اِسے حکومتی نااہلی قرار دیا۔ممتاز صحافی ،معروف کالم نویس ”رشید احمد نعیم” کا کہنا تھا کہ ”نامور صحافی عرفان صدیقی کی گرفتاری حکومتی سبکی کا باعث بن سکتی”۔ اگر حکومت واُس کے ادارے نے پختہ ارادہ کرہی لیا تھا کہ عرفان صدیقی کو ہر حال میں گرفتار ہی کرنا ہے توکم از کم کسی ایسے کیس میں تو کرتی کہ جس میں حکومت کی کافی ”جے جے کار” ہوتی،اُس کے اِس” عظیم” کارنامے پر شادمیامنے بجائے جاتے۔یہ کیا اتنے بڑے صحافی کوپکڑکر اُن پر کیس بھی بنایا تو وہ بھی کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کا،پھریہ کہ اِن کی اِس کیس میں گرفتاری بھی ڈال دی،بعدازاں جوڈیشل ریمانڈ پر” جیل یاترہ”اُن کا مقدر ٹھہرا۔کرایہ داری ایکٹ میں اُن کو وارننگ دے کر بھی چھوڑا جاسکتا تھامگر ایسا نہیں ہوا۔کیا ملک کے چوٹی کے صحافی،نامور کالم نویس سابق مشیر وزیر اعظم پاکستان کیا کوئی معمولی شخصیت تھے،جو اُن کے ساتھ ایسا نارواسلوک روا رکھا گیا، جس طرح اِس معمولی خلاف ورزی پراُن کو پابند سلاسل کیا گیا،کیا وہ اتنے اعلیٰ منصب پر رہنے پراِس کے حق دار تھے،کیا وہ غیر ذمہ دار شخصیت ہے،جو ایسا کیا گیا؟اُن کو وارننگ دینے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی گئی۔
جھٹ پکڑ ،پٹ جیل میں ڈالا والا واقعہ کیا کوئی معمولی واقعہ ہے،جس طریقے سے اُن کو ہتھکڑی لگائی گئی،کیا وہ کوئی بہت ہی سنگین جرم کے مرتکب ہوئے تھے،ہتھکڑی لگاکر اُن کی جس طرح ON LIVE میڈیاتذلیل کی گئی،کیا وہ دہشت گرد تھے؟ملک کی سیاسی ،سماجی وصحافتی دنیا کے چمکتے ستارے معروف صحافی عرفان صدیقی کی گرفتاری حکومت وقت کے لیے ایک اچھا شگون نہیں ،اپنی راہوں میں مزید کانٹے بچھانے والی بات ہے،پھر ایسے میں کہ یہ جرم کوئی اتنا سنگین جرم نہ ہے ،جس کی اتنی بڑی سزا اِن کو دی جارہی ،معلوم ہوا ہے کہ اِن کے ساتھ اِن کے کرایہ دار کوبھی پکڑ لیا گیا ہے ،جو کہ ایک بڑے تاجر بتائے جا رہے،کیا یہ عرفان صدیقی کابہت بڑا جرم ہے کیا،جو اُن سے سرزد ہوا ہے؟کیا اُن کے ہاں رہنے والا شخص کیا راء ،موسادیا سی آئی اے کا کوئی جاسوس یا دہشت گرد ہے،جو پکڑا گیا۔ یہاں تو رائ، موساد اورسی آئی اے کے ایجنٹوں کو بھی ایسے نہیں پکڑا جاتاہتھکڑیاں نہیں ڈالی جاتیں،جس طریقے سے ساری زندگی قلم ،کتاب اور ہاتھ سے سے علمی وفکری جہاد کرنے والے کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاںڈالی گئیں اور اُسے اُس مقام پر پہنچادیا گیا،جس کے وہ قطعی حقدار نہ تھے۔
یہ ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں ریمنڈ ڈیوس جیسے جاسوس پاکستانی شہریوں کو دن کے اجالے میںسڑک پر مار دیتے ہیں اور قانون رسما حرکت میں آتا ہے اور پھر یہ کہ پاکستان کے ”وسیع تر مفادات” ”اعتدال اور” روشن خیالی ”کی بھینٹ چڑھاکر ”اغیار”کی خوشنودی کے لیے ”باعزت” رہائی پاکر بغیر ویزہ اسپیشل جہاز پر امریکہ بھیج دیا جاتا،پر بھی اتنی گرفت نہ تھی، قانون کا اتنا سخت اطلاق نہ تھا۔ملک میںامریکہ و بھارت کے جاسوسوں پائیلٹوں کو چھوڑتے ایک پل بھی نہیں لگاتے اور”وسیع تر دوستی”اور”فراخ دلی”کا مظاہرہ کرتے” چٹ لگائے بغیر”ہی چھوڑدیتے،مگر جب معاملہ ملک میںہوتو ملک کے محب وطن افراد ،جو ملک وقوم کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے والے اور اِس ملک کی تعمیرو ترقی میں ہراول دستے کا رول پلے کرنے والے ، اُن کو جیل میں ڈالتے ایک پل اور لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں سوچتے،اِس ملک کا کیا نرالا دستور ہے کہ ملک کی بربادی چاہنے والوں کو تو”وسیع دوستی”میں (جس کی دوسروں میںایک جھلک بھی نظر نہیں آتی) بارڈر پردوسرے ملک کے حوالے کرنے کے لیے خود چل کر جاتے ہیں اوراُس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیںاور ملک کے افراد جو اِس ملک کے خیر خواہ باسی ہیں کو مجبوریوں ماری حالت میں کرائے کے مکان میں بھی چین سے جینے نہیں دیتے،پکڑتے بھی ہیں اور حکومتی سطح پراُس کاواویلا بھی مچاتے ہیں۔کیا عرفان صدیقی کا جرم اُن چھوڑے گئے وطن دشمنوں پائیلٹوںجاسوسوں سے بھی بڑا ہے کہ اُن کو ایسے گرفتار کیا کہ جیسے وہ کوئی ملکی راز فاش کر بیٹھے ہویا اُن سے کوئی بہت بڑا ”جرم عظیم ”سرزد ہوگیا ہو۔اگر اِس ملک میں ملک کے” وسیع تر مفادات ”میں پائیلٹجاسوس اور اِس کوناقابل تلافی نقصان والے چھوڑے جاسکتے ہیں تو عرفان صدیقی جو اِس ملک کا سرمایہ ہے ،کو بھی اُس کی سیاسی وابستگی کس سے ،کو نظر انداز کرکے ،وارننگ دے کر ،اپنا معاملہ درست کریں کہہ کر ایک گرم محاذ کھولنے کی بجائے چھوڑا جاسکتا تھا۔
پاکستان وہ دیس ہے جہاں مار کٹائی ،لڑائی جھگڑے اور بہت سے معاملات پر شخصی ضمانت پر افراد چھوڑ دئیے جاتے ،کیا عرفان صدیقی کا جرم اتنا ہی بڑا تھاکہ اُن سے یہ سہولت بھی چھین لی گئی اور انہیں جیل بھجواکر ہی چھوڑا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت نے اگرانہیں کسی کیس میں گرفتار کرنے اور مزہ چکھانے کا سوچ ہی لیاتھاتو اُن پر ”بھینس چوری” کا مقدمہ بنادیتی،”ٹی وی چور” کا لیبل ہی لگا دیتی،” افیون ،چرس،ہیروئن” کے مقدمے میں پھنساتی،اُن پر ”ناجائز اسلحہ ”ڈال کر اُن کو اندر کروا دیتی کہ اِس سے حکومت کابھی ”بار”بنتا اور عرفان صدیقی کو بھی اپنے ”جرموں”کا احساس مسلسل ستاتا رہتا،کیا بُرا کیا حکومت نے کہ ملک کی جانی پہچانی شخصیت ،سیاست وصحافت کے افق پر چمکتے ستارے عرفان صدیقی پر مقدمہ بھی کیا تو اُن کی شخصیت ،مقام و مرتبہ اور قد کے مطابق نہ کیا،حکومت وقت کی یہ اوچھی حرکت حکومت کے بدن کو کب کب تک تارتار کرتی رہے گی اور آخر کب تک حکومت شرم سے پانی پانی نہیں ہوتی رہے گی۔اگر شخصی انتقام ،ناانصافیوںکی صورتحال اسی طرح رہی اورقوم کے روشن مگر ضیعف تجربہ کار دماغ ایسے ہی ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر ”یونہی تیرا یہ شغل ٹھہرا،میری برسوں کی کمائی گئی”جیل میں ڈالتے رہے تو حکومت وقت کے لیے مشکلات پر قابو پانا مزید مشکل ہوجائے گا۔
کہتے ہیں کہ بد سے بدنام برا،کہیںحکومت وقت سیاست دانوں کے بعد صحافیوں کی گرفتاریوں کی روش پر تو نہیں چل پڑی؟ اگر ایسا ہی ہے تو ہمارے جیسے صحافی جو حکومت کے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے سے لے کر اب حکومت میں ہونے تک، اِس کے حق میں”انتہائی اقدام” کی حد تک لکھے جا رہے ہیں،کیا ہمیں بھی کوئی ریلیف ملے گا کہ گھن میں گہیوں بھی پس جاتا والا معاملہ کریں گے؟کیا حکومت وقت کے سات چلنے اور اُس کی پالیسیوں کی حمایت کے باوجودکبھی حکومت بارے ”نرم گرم”لکھنے پر اگنور کر دئیے جائیں گے کہ ہاتھ جھٹک دیاجائے گا۔ایک طے شدہ پلان کے مطابق،آپ میں موجود ایک سوچ کی طرح۔سچ لکھنا کتنا کٹھن اور اِس کی سزا بڑی جان لیوا۔خدا خیر کرے،سنا ہے کہ صحافت اور صحافیوں پر برا وقت آن ہی پہنچا ہے، پابندیاں بھی لگنے کا خطرہ اور سزائیں بھی ملنے کے امکانات ،کون آزاد فضا میں رہتا اور کون جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاجاتا،جیل بھرو،حکومت کی ایک رسم چل پڑی ہے،دیکھیئے اِس ”کم بخت”جیل سے کون بچ پاتا اور کون کون اِس کا شکار ہوتا،آنے والے دنوں میں سب واضح ہوجائے گا،سنا ہے کہ اب کے بار حکومت کے ارادے بڑے ہی خطرناک، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو نکیل ڈالنے کا ارادہ رکھتی ،نکیل ڈال کر ہی چھوڑے گی ،صرف اور صرف اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے ،مہنگائی اور بیروزگاری پربات کرنے سے روکنے کے لیے ،،آگے جاکرخودپرہر طرح کی تنقید سے بچنے کے لیے۔دما دم مست قلندر کا کھیل سیاستدانوں سے شروع ہوکر صحافیوں تک جا پہنچا ،دیکھیئے اختتام کہاںپر ہوتا ہے۔#