انسان اکثریہ سوچتے ہیں کہ انکی زندگی ہمیشہ ایک سی گزرے گی۔ بہت اچھی یابہت افسردہ لیکن حقیقت بالکل اسکے برعکس ہے اور انسان اکثر غلط ثابت ہوتا ہے کبھی کبھی اسکی زندگی میں بہت سے خوشگوار مواقع آتے ہیں تو کبھی تکلیف دہ لمحات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن خوشگوار مواقع اور تکلیف کے لمحات کے ذمہ دار بھی انسان خود ہی ہوتے ہیں اس کالم کو لکھنے کے بارے میں بدھ کی صبح سوات میں آگ سے ماں بیٹیوں کے جھلسنے کے بعد سوچا۔ قارین منگل کی رات سونے والی یہ ماں بیٹیاں نجانے کیا کیا خواب آنکھوں میں لیے سوئی ہوں گی، انہیں کیا معلوم تھا کہ ہم رات کو چولہا ہی صیح طرح نہیں بند کر پائے۔
انکو کیا معلوم تھا کہ وہ صبح وضو کیلیے پانی گرم کرنا چاہیں گی تو گیس لیکج کی وجہ سے گیس انکے گھر میں پھیلی ہو گیا اور بالکل ایسا ہی ہوا جیسے ہی ان بچیوں کی والدہ زیب النساء نے چولہا جلانے کیلیے ماچس کی تلی جلائی فوراً آگ نے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس گھر میں موجود چاروں ماں بیٹیاں جھلس گئیں۔قارئین اسطرح ہم لوگ بہت سی ایسی چھوٹی چھوٹی غفلتیں کرتے ہیں جو بعض اوقات ہماری جان بھی گنوا دیتی ہیں۔
3دسمبر 2010 کو کوئٹہ میں ہلاک ہونیوالا اے ایس آئی اسکی والدہ، اور گھر میں موجود ایک رشتے دار بھی صرف رات کو ہیٹر نہ بند کرنیکی وجہ سے پتہ نہیں رات کے کس پہر خاموش نیند سو گئے،17اپریل 2012 کو جھنگ میں شادی کی پہلی رات مرنے والے میاں بیوی بھی جنریٹر سے نکلنے والے دھواں سے دم گھٹنے سے جان دے چکے ہیں۔ قارئین آخر کب تک کبھی گیس کا چولہا کھلا رہنے اور کبھی جنریٹر کے دھواں سے دم گھٹنے اور کبھی گیس ہیٹر رات میں آن رہنے سے موت ہمارا بہانہ بنتی رہے گی۔ گیس لیکج سے موت کی وجہ بتاتا چلوں کہ سوئی گیس کی لیکج سے نکلنے والے زہریلے مرکبات جیسے کہ میتھین گیس وغیرہ۔ ہمارے جسم میں جا کر خون میں آکسیجن کی مقدار کو کم کر دیتی ہے اور ہماری خاموش نیند کا سبب بنتی ہے۔
قارئین اب ہمیں ایسی چھوٹی چھوٹی غفلتیں جو خاموش نیند کا بہانہ بنتی ہیں نظرا نداز نہیں کرنا ہوں گی۔ یقینا ہماری انہی چھوٹی چھوٹی غلطیوں ہی کی وجہ سے سانحہ گجرات ہوا تھا۔جس میں ایک خاتون ٹیچر سمیت کئی معصوم بچھے بھی جان سے گئے تھے اگر ہمارے ہاں ناقص سی این جی سلنڈروں کا استعمال نہ ہوتا تو شاید سانحہ گجرات میں مرنیوالے اپنے پیاروں میں ہنستے کھیلتے اپنی زندگی گزار رہے ہوتے۔ آخر ہمارے ہاں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کوئی سانحہ ہوتا ہے اسکے بعد ہی قانون ہرکت میں آتا ہے اور افسوس تو یہ کہ چند روز دو ڑدھوپ کے بعد نیتجہ پھر صفر رہتا ہے۔ پاکستان بھرکے کونے کونے میں پٹرول اور ایل پی جی گیس کھلے عام ایجنسیوں میں فروخت ہو رہے ہیں لیکن انتظامیہ کو پتہ نہیں کیوں نہیں یہ کھلے عام سیل پوائنٹ نظر نہیں آتے۔آخر ایسی کیا ضرورت ہوتی ہے کہ پٹرول پمپ سے چند گز کے فاصلے پرہی ایجنسیاں نہ صرف کھلا پٹرول فروخت کر رہی ہوتی ہیں بلکہ اضافی قیمت بھی وصول کر رہی ہوتی ہیں لاہور میں گذشتہ چند ماہ میں پٹرول ایجنسیوں میں آگ لگنے کے دو واقعات رونما ہوئے ہیں جوبڑی تباہی کا سبب بن سکتے تھے لیکن ریسکیو جوانوں نے بہت مشکل سے حالات پر قابو پایا۔ ان وقعات کے بعد چند روز تو انتظامیہ ہرکت میں آئی لیکن کچھ روزکے بعدوہ ہی کھلا پٹرول، وہی سیل پوائنٹ، اور وہی ہم جیسے خریدار۔ کیا ہم صُم بُکْم عُمْی کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ ہمیں ایسی چیزیں نظر آتیں ہی نہیں جو ہمارے لیے جانی ومالی نقصان کا سبب بنتی ہیں کیا ان کھلے عام پڑول وگیس بیچنے والے قانون شکنوں کے ہاتھ قانون سے ذیادہ لمبے ہیں یا پھر انکی غیر قانونی کمائی کا کچھ حصہ قانون نافظ کرنیوالوں کی جیبوں تک پہنچ رہا ہے۔
Child Rape
قارئین یہ تو غفلتوں کی تصویر کا ایک رخ تھا جبکہ اسی تصویر کا دوسرا رخ انتہائی مسخ شدہ اور بھیانک ہے ہمارے معاشرے میں روز بروز جنسی زیادتی اور بعد از قتل کے مقدمات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان ذیادتیوں کا شکار جوان بچیوں تو ہیں لیکن اس کیساتھ ساتھ کمسن اور معصوم بچے اور بچیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے آخر یہ سب کچھ اس قدر آسانی سے کس طرح ممکن ہوتا ہے کیا کہیں ہم جرائم کی اس نگری میں جرم کی راہ ہموار تو نہیں کر رہے۔ کیا ہم نے بحیثیت ہمسائیہ، دوست، رشتہ دار، باپ، ماں، بھائی، بہن، بیٹے کا کردار بخوبی نبھایا ہے یاہم بھی دوسروں کی طرح صرف محو تماشا ہیں۔
ہم اکثر اپنے گردونواح میں بچوں کیساتھ کسی اجنبی کوبے تکلف ہوتا دیکھتے ہیں تو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ہماری یہ لاپرواہی بعض اوقات ہمارے بچوں کے اغواء کا سبب بنتی ہے تو کبھی زیادتی کیس بعد ازقتل جیسے واقعات کا۔ اسی طرح ہم اپنی جواں سالہ بچوں اور بچیوں کو موبائل تو لے دیتے ہیں لیکن اسکے بعد موبائل چیک کرنیکی زہمت نہیںکرتے کہ ہمارے بچوں کے موبائل میں کس کس کے نمبر ہیں اور کس قسم کے میسج۔ اگر ہمارے پاس روزانہ بچوں کے موبائل دیکھنے کا وقت نہیں تو پھر بچوں کو پریپیڈ سموں کی جگہ پوسٹ پیڈسمیں مہیاں کریں تا کہ روزانہ نہیں تو ماہانہ وار ہی ہم اپنے بچوں کی فون ریکارڈز کو چیک کرنیکی زحمت کر لیں۔
اسی طرح ہم اپنی کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل یا گاڑی مہیا کرنیکے کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن کبھی بچوں کے پیچھے جا کر یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ بچوں کی موٹر سائیکل چلانے کا طریقہ کیا ہے انکی حد سپیڈ کیا ہے اور ہماری اسی لاپرواہی کی وجہ سے بچے نہ صرف اورسپیڈ میں موٹر سائیکل چلاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات ون ویلنگ بھی کرنے لگتے ہیں موٹر سائیکل کی ریس کھیلنے لگتے ہیں اور ماں، باپ کی طرف سے یہ چھوٹی سی غفلت یا تو بچوں کی موت کا سبب بنتی ہے اور یا ان بچوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور کر دیتی ہے اور اسکے ساتھ بڑے بزنس مین حضرات کی بات کرتے ہیں جن کی فیکٹریوں میں سینکٹروں لوگ کام تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کئی فیکٹریوں میں مزدوروں کے باہر نکلنے کیلیے ایک ہی راستہ ہوتا ہے اور کسی بھی قسم کا ایمرجنسی گیٹ نہ بنانیکی غفلت سے مختلف حادثات میں کئی مزدور اپنی قیمتی جانوں کو گنوا بیٹھتے ہیں وہ مزدور جن میں سے اکثر اپنے گھر کا واحد سہارا ہوتے ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری میںبوڑھے ماںباپ کاعلاج ،بیوی بچوںکی ضروریات کو پوراکرناشامل ہوتا ہے لیکن سر مایہ دار فیکڑی مالکان کی غفلت غریب مزدوروں کی موت کی سبب بنتی ہے قارئین غفلتیں چھوٹی لیکن نقصانات بڑے اور ناقابل تلافی ہوتے ہیں لیکن تھوڑی سی سمجداری اور زمہ داری سے با آسانی بہت سے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔
قارئین رات کو گیس کا چولہا چیک کرنے اور گیس ہیٹر بند کرنے میں کچھ سیکنڈز ہی لگتے ہیں لیکن یہ چند سیکنڈز کی ذمہ داری بہت سے لوگوں کی جانیں محفوظ بنا سکتی ہے، اگر گھروں میں جنریٹر رکھتے ہیں تو اسکو بند کمروں میں نہیں بلکہ کھلی جگھوں میں رکھنے چاہئیے۔ آخر کھلا پٹرول بیچنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے ہاں کوئی ایسی جگہ جہاں سے پٹرول تک لوگوں کی رسائی نہ ہو وہاں مجبوری کے باعث کھلے پٹرول کی فروخت سمجھ آتی ہے۔ آخر کیوں ہم کچھ ہزار بچانے کے لیے کمرشل گاڑیوں میں ناقص سی این جی سلنڈر لگواتے ہیں جو بعض اوقات کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں اگر ہم اپنے اردگرد ہونیوالی نقل وحرکت پردھیان دیں تو یقینا جنسی زیادتی کے کیسز میں کمی آ سکتی ہے اگر ہم اپنے بچوں کو پری پیڈسموں کی جگہ پوسٹ پیڈسمیں مہیا کرنی شروع کر دیں اور ماہانہ وار آنیوالے بلز میں موجود کال ریکارڈز دیکھنا شروع کر دیں تو یقینا جوان بچے، بچیاں جو گمراہ ہو جاتے ہیں اور گھروں سے بھاگ جاتے ہیں یقینا ان کیسز میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔
کم عمر بچوں کو موٹر بائیک یا گاڑی دینے کے بعد انکی نقل وحرکات کوچیک بھی کرتے رہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ خود بھی ٹریفک حادثات سے بچنے کیلیے ٹریفک قوانین پر عمل کریں۔ بڑے بڑے کاروباری حضرات کو بھی چاہیے کہ غریب مزدوروں کی قیمتی جانوں کو یقینی بنائیں جو اکثر اپنے گھروں کے واحد خود کفیل ہوتے ہیں فیکٹریوں میں آگ بجھانے کے آلات کی تنصیبات کو یقینی بنایں اور فیکڑیوں کو کھلے فیکڑی علاقوں میں قائم کریں اور میڈیا بھی مختلف آگاہی پروگرام شروع کر کے لوگوں کو تربیت فراہم کرے۔