تحریر: نجیم شاہ یوں تو پاکستان کا ماضی سیاسی نونک جھونک اور سیاسی چھین جھپٹ سے لبریز ہے، مگر کچھ عرصہ سے عمران خان اور اسحاق ڈار کے درمیان دلچسپ نونک جھونک کا سلسلہ شروع ہے۔ عمران خان پہلے اپنے جلسوں میں ڈار صاحب کی اس کنفیشن کا ذکر کرتے تھے جس میں انہوں نے شریف برادران کے لئے پیسہ غیر قانونی طور پر باہر بھجوانے کا تحریری اعتراف کیا تھا اور اب خان صاحب کے تازہ انکشاف کے مطابق اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کرتے ہوئے کروڑوں ڈالر دبئی منتقل کر دیئے ہیں۔ اس حوالے سے میڈیا کو اپنے اعداد و شمار بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض میڈیا گروپ اسے چالیس کروڑ ڈالر، بعض چالیس کروڑ روپے جبکہ ڈار صاحب کے مطابق انہوں نے چالیس لاکھ ڈالر بیٹوں کو دیئے تھے۔
بہرحال اعداد و شمار چاہے جو بھی ہوں معاملہ منی لانڈنگ کا ہے۔ منی لانڈرنگ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سیاہ دھن کو سفید دھن میں تبدیل کیا جاتا ہے یا یوں کہئے کہ اس عمل کی مدد سے پیسے کے حصول کے اصل اور مجرمانہ ذریعہ پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے، یعنی جب کسی غیر قانونی ذریعے سے بہت ساری دولت کمائی جاتی ہے تو ایسی دولت کمانے والے کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی مجرمانہ کارروائی نہ کسی کی نظر میں آئے اور نہ ہی کمائے جانے والے پیسے کی غیر قانونی حیثیت عیاں ہوں اور نہ ہی ان کی اپنی نشاندہی ہو سکے، اس لئے مجرم اپنی غیر قانونی طور پر کمائی ہوئی دولت کا ناجائز ذریعہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے پیسے کو ایک جگہ سے کم توجہ حاصل کرنے والی دوسری جگہ منتقل کرکے اس کی ابتداء کو چھپانا چاہتے ہیں، جو منی لانڈرنگ کہلاتا ہے۔
اپنی نوعیت کے اعتبار سے منی لانڈرنگ خود بھی ایک غیر قانونی سرگرمی ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ غیر قانونی طور پر کمائی گئی دولت کی بڑی تعداد کو مختلف جگہوں پر منتقل کرکے اس کی غیر قانونی نوعیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عمران خان کے تازہ انکشافات کے بعد اسحاق ڈار نے نے چیئرمین تحریک انصاف کو خط لکھ کر جواب دیا کہ یہ رقم انہوں نے اپنے بیٹوں کو اپنی ذاتی اور قانونی آمدن سے قرض حسنہ دی تھی جو بعد میں واپس لوٹا دی گئی ہے۔
ڈار صاحب کے اپنے دفاع میں بیانات اور پی ٹی آئی چیئرمین کو لکھے گئے خط کے بعد تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار نے اپنے خط میں پی ٹی آئی کے مؤقف کو تسلیم کر لیا ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو کروڑوں ڈالر منتقل کیے ہیں، جبکہ محترم رئوف کلاسرا صاحب نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ٹیکس دینے کا وقت آیا تو اسحاق ڈار صاحب نے چالیس کروڑ ڈالر اپنے بیٹوں کو قرض حسنہ دے دیا۔
Ishaq Dar
چیئرمین پی ٹی آئی اور وزیر خزانہ کے بیانات میں اگر فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ عمران الزام مزے لے لے کر لگاتے ہیں اور اس کے جواب میں ڈاصر صاحب کے لب و لہجے میں جھنجھلاہٹ صاف دکھائی دیتی ہے۔ وزارت دفاع کے ترجمان نے ڈار صاحب کے حق میں جو گواہی دی ہے اس کے مطابق انہوں نے اپنے بیٹے کو رقم بطورِ قرض دی تھی جو بینکنگ چینل کے ذریعے واپس بھیج دی گئی ہے مگر عمران خان صاحب اس بات کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ڈار صاحب کے حق میں دی گئی اس گواہی سے یہاں تک بات سمجھ آ گئی ہے کہ ڈار صاحب کے ڈالر ”قانونی” ہو گئے ہیں جبکہ عمران خان کا ان پر الزام غلط ثابت ہو گیا۔
ڈار صاحب ایک طرف یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذاتی اور قانونی آمدنی سے بیٹوں کو رقم فراہم کی تھی مگر دوسری طرف جب خان صاحب اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو وزارت خزانہ ڈار صاحب کے اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیتی ہے۔ ڈار صاحب اگر سمجھتے ہیں کہ ان کی دولت واقعی قانونی ہے اور انہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کیلئے دولت بیرون ملک منتقل نہیں کی اور بطورِ رکن پارلیمنٹ وہ باقاعدگی سے ٹیکس گوشوارے جمع کراتے رہے ہیں تو انہیں خان صاحب کا ذرائع آمدن سامنے لانے اور باقاعدگی سے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا مطالبہ تسلیم کرنا ہوگا، کیونکہ سوال آمدنی کے حلال یا حرام کا نہیں، آمدنی پر ادا کئے گئے ٹیکس کا ہے۔