تحریر : سید انور محمود سالانہ بجٹ دنیا بھر میں عام طور پر حکومتی کام کا ایک حصہ خیال کیا جاتا ہے ، اس سلسلے میں حکومتیں نہ تو اپنی تعریف کے ڈنکے بجاتی ہیں اور نہ ہی حزب اختلاف حکومت کے خلاف کسی قسم کا شورشرابا کرتی ہے۔ لیکن ہمارئے ملک میں اس کے بلکل برعکس ہوتا ہے ۔ وفاقی بجٹ کی آمد سے پہلے وفاقی وزیرخزانہ اور حکمران جماعت کے اراکین عوام کو بتارہے ہوتے کہ بس بجٹ آتے ہی آپکے تمام مسائل جن میں معاشی ، تعلیمی اور صحت کے ساتھ ساتھ تمام سماجی مسلئے بھی حل ہوجاینگے۔ انہتر سال سے یہ سب کچھ سننے والے اس ملک کے عوام بجٹ آنے سے پہلے گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں کہ پتہ نہیں اب کونسے نئے ٹیکس کا عذاب نازل ہوگا، اور ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔بجٹ آنے کے بعد حکومتی اراکین کے مطابق شاید اس سے اچھا بجٹ ہوہی نہیں سکتا۔ جبکہ دوسری طرف اپوزیشن کے اراکین بجٹ کے زریعے عوام پر جو مصیبت ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے اس پر مگرمچھ کے آنسو بہارہے ہوتے ہیں۔ وفاقی بجٹ کے معاملے پر حکومت، اپوزیشن، این جی اوز اور ٹریڈ یونین قیادتوں کے مابین ہونے والی نورا کشتی کچھ عرصے تک میڈیا کی زینت بنی رہتی ہے، بڑئے بڑئے جغادری میڈیا پر بیٹھ کر گلے پھاڑ پھاڑکر عوام کے مسائل کا رونا رورہے ہوتے ہیں۔تھوڑئے دن بعد کوئی نیا موضوع میڈیا کے ہاتھ آجاتا ہے اور بجٹ کہانی ختم۔
تین جون 2016ء کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں مالی سال 2016-17 کا بجٹ پیش کردیا۔ بجٹ کا مجموعی حجم 4894.9 ارب روپے جب کہ معاشی نمو کی شرع کا ہدف 5.7 فیصد رکھا گیا ہے اور ٹیکس وصولی کا ہدف 3621 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔ اسحاق ڈارنے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا چوتھا بجٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں دفاع کے لئے آٹھ سو ساٹھ ارب روپے رکھے گئے ہیں یعنی آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کی مد میں 11 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ آٹھ سو ارب روپے ترقیاتی پروجیکٹس کے لئے مختص کیے گئے ہیں۔ ایک سو تیس ارب روپے توانائی کے شعبے کے لئے، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لئے ایک سو اٹھاسی ارب، فاٹا کے متاثرین کے لیے سو ارب، امن و امان کے لیے ایک سو تین ارب ، ریلوے کے لئے 78 ارب، پانی کے منصوبوں کے لیے 32 ارب اور ہائر ایجوکیشن کے لیے 21.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 29 ارب روپے بنیادی صحت کے لیے اور پچیس ارب روپے گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کے لیے بھی مختص کیے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ جب کہ ایڈہاک الاؤنسز کوبنیادی تنخواہ میں ضم کر دیا گیا ہے۔ مزدور کی کم از کم تنخواہ چودہ ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ تیس لاکھ سے زیادہ جائیداد کی خرید و فروخت پر وِدہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھادی گئی ہے۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار کے بارئے میں مشہور ہے کہ وہ معاشی اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرنے کے بادشاہ ہیں اور وہ وفاقی بجٹ کی تشکیل میں بھی اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ کبھی قرضوں کو آمدن کی مد میں دکھایا جاتا ہے تو کبھی سابقہ قرضوں کی واپسی کیلئے درکار رقم میں سود کی واپسی کیلئے مختص رقم کو شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ کبھی توانائی کے شعبے سے منسلک گردشی قرضوں کو قرضہ تصور ہی نہیں کیا جاتا تو کبھی فوجی بجٹ کو کم دکھانے کیلئے اس کا ایک بڑا حصہ سویلین اخراجات میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ کبھی افراطِ زر کی شرح کو کم دکھانے کیلئے کنزیومر پرائس انڈیکس بنڈل میں اپنی مرضی کے مطابق ردو بدل کر دیا جاتا ہے تو کبھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو بھی متعلقہ شعبے کے ترقیاتی بجٹ کا حصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس تمام بیہودگی کے علاوہ پورا سال منی بجٹ کے آنے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور وفاقی بجٹ کے بعد بھی ہر سال حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔
Pervez Musharraf
ڈاکٹر اشفاق حسین پاکستان کے مایہ ناز معیشت دان ہیں جنرل پرویز مشرف کے دور میں مشیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں، ایک شفاف اور مستند و معتبر نام ہے بجٹ کے اعلان سے قبل ان کا کہنا تھا نئے قومی بجٹ میں معاشی نمو کی شرع 5.7 فیصد ظاہر کی جائے گی مگر یہ معاشی نمو کی شرع صرف 3.1 فیصد ہے اور جب ملک کے وزیر خزانہ کو متعلقلہ ادارے نے اصل صورت حال سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا ملک کا معاشی نمو کی شرع 3.1ہے تو وزیر خزانہ ناراض ہوگئے اورحکم دیا اسے 5.7 فیصد تیار کرکے لایا جائے۔ ڈاکٹر اشفاق حسین کا کہنا ہے یہ صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ وزیر خزانہ بجٹ تقریر میں دعوی کرنا چاہتے تھے کہ گزشتہ 8 سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں معاشی نمو کی شرع کو 5.7 تک پہنچا دیا گیا۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے دو جون کو ایک انگریزی اخبار میں اس خوفناک بدعنوانی اور بے ایمانی کی تفصیلات پر مشتمل مضمون بھی لکھا ہے، واضع رہے کہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی اہلیہ پنجاب حکومت کی مشیر خزانہ بھی ہیں مگر اس کے باوجود ڈاکٹر حفیظ پاشا نے حکومت کے خفیہ معاملات سے پردہ اٹھانے میں زرا بھی عار محسوس نہیں کی۔
موجودہ حکومت نے اپنے دور اقتدار میں پیش کئے جانے والے تین وفاقی بجٹوں میں تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے معاملے میں سرکاری ملازمین کو لالی پاپ دیا ہے۔ افراطِ زر کی شرح کی مناسبت سے دیکھا جائے تو حقیقی اجرتوں اور پنشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ قرضوں کی واپسی، دفاع اور عوامی ضروریات سے بیگانہ ترقیاتی منصوبوں پر بجٹ کا تقریباً 80 فیصد خرچے جانے کے بعد صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں اور سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے بہت کم رقم بچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ پینے کے صاف پانی اور جدید سیوریج کی سہولیات سے محروم ہے ۔ محنت کش طبقے کیلئے رہائشی سہولیات کا شدید فقدان ہے اور شہروں میں کچی آبادیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
یہ ایک روایتی بجٹ ہے جس میں ’’امیر کو امیر ترین اور غریب کو غریب تر ‘‘ بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، حسب دستور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی ہے، اگر آپ اس بجٹ کو روایتی ہونے کے ساتھ ساتھ عوام دشمن بجٹ قرار دیں تو بہتر ہوگا۔ چونکہ بجٹ کے سلسلے میں ہونے والی پریس میں وزیر خزانہ کے پاس ٹھوس اور معقول جوابات نہیں تھے لہذا پر ہجوم پریس کانفرنس کے آغاز میں وزیر خزانہ نے مشکل اقتصادی زبان میں اپنی کامیابیاں گنوائیں اور حاضرین سے داد طلب کرنے کی غرض سے کئی بار کہا کہ کئی روز کی ’عرق ریزی‘ کے بعد بہت اچھا بجٹ بنانے کی کوشش کی ہے۔ وزیر خزانہ نے مہنگائی اور خوراک کی قیمتیں کم نہ ہونے پر پوچھے گئے سوالات پر مشکل اور ثقیل اقتصادی زبان کا استعمال کرتے ہوئے بچ نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ ڈاکٹر اشفاق حسین اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے وزیر خزانہ اسحق ڈار کے اعداد شمار میں ہیرا پھیری کے بارئے میں بیان اور مضمون کے بعد اس بجٹ کےاعداد و شمار پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ مجموعی طور پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ چوتھا ناکام بجٹ ہے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔