تحریر: سید انور محمود پورے پاکستان میں صرف دو جڑواں بھائی ہیں جو عیش کر رہے ہیں اور جنہیں آج تک ہمارے حکمرانوں کے سوا کسی نے دیکھا تک نہیں، ان میں سے پہلے کا نام ہے “نامعلوم” جبکہ دوسرے کا نام ہے “عام آدمی”۔ پورے پاکستان میں کہیں بھی کوئی بھی جرم ہو، قتل ہو، ٹارگٹ کلنگ ہو، چوری ہو یا لوٹ مار، ان جرائم میں جو مجرم نہیں پکڑا جاتا اُسے ہمارے حکمران “نا معلوم” کہہ کر پکارتے ہیں اور یہ “نامعلوم” کبھی بھی پکڑا نہیں جاتا، اس لیے” نا معلوم” جہاں بھی ہے سارے جرائم کرنے کے باوجود عیش کرتا ہے۔
پوری دنیا میں “عام آدمی” کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوتے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی آمدنی اور اخراجات تقریباً یکساں ہوتے ہیں اور جو اپنی ساری زندگی آمدنی اور اخراجات کی جمع تفریق میں گزار دیتے ہیں، یا پھر وہ غریب ہیں جن کی آمدنی اتنی نہیں ہوتی جس سے وہ اپنے اور اپنے بچوں کےلیے بنیادی ضروریات خرید سکیں۔ متوسط طبقے میں نوکر پیشہ اور چھوٹے کا روبار کرنے والوں کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے ہنرمندشامل ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے۔
Unemployment
یہ متوسط طبقہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتا ہے۔ بدنصیبی سے پاکستان میں متوسط طبقہ بے روزگاری، کاروبار کی بندش اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے سکڑ کر تیزی سے غریب طبقے میں شامل ہورہا ہے۔ آمدنی اور وسائل کے کم ہونے کی وجہ سے اس وقت ملک کی 65 فیصد آبادی غربت یا غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں اس طبقے کو “عام آدمی” نہیں کہا جاتا، ہمارے ملک میں “عام آدمی” کا اصل مطلب مراعات یافتہ طبقہ ہے، جس پرکسی بھی قسم کی مہنگائی کا کبھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔
آیئے اسلام آباد چلیں جو ہمارے حکمرانوں کا شہر ہے اور جہاں یکم دسمبر 2015ء کو ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک منی بجٹ کے ذریعے اکسٹھ درآمدی اشیاء پر پانچ سے دس فیصد مزید ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی اور دو سو نواسی درآمدی اشیاء کی ڈیوٹی میں پانچ فیصد اضافے کا اعلان کیاہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ “نئے محصولات لگانے کا مقصد سال کے پہلے چار ماہ میں حاصل ہونے والی آمدنی کے انتالیس اعشاریہ آٹھ ارب روپے کے خسارے کو پورا کرنا ہے”۔
Ishaq Dar
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان ٹیکسوں کا اثر “عام آدمی” پر نہیں پڑے گا۔ بقول اُن کے نئے ٹیکس پر تعیش اشیاء پر لگائے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں محصولات کے ہدف میں چالیس ارب روپے کی کمی پوری کرنے کے لیے ای سی سی کے اجلاس میں ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ نئے ٹیکسوں سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہوتی ہیں، وزیر خزانہ صاف کیوں نہیں کہتے کہ وہ آئی ایم ایف کے دباؤ میں ہیں۔ آئی ایم ایف نے واضح کر دیا تھا کہ اگر نئے ٹیکس نافذ نہ کیے گئے تو پاکستان کو قرضے کی اگلی قسط نہیں مل سکے گی۔ مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کے بعد وزیر خزانہ نے حسب دستور اپنی بات کو بدلتے ہوئے کہا کہ ان نئے ٹکیسوں سے حاصل ہونے والی چالیس ارب روپے کی آمدن اندرون ملک بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کی بحالی اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہوگی۔
اُنہوں نے کہا حکومت نے صنعتوں، زراعت اور مقامی طور پر بننے والی تمام اشیاء پر ٹیکس نہیں لگائے ہیں، البتہ کاسمیٹکس، چاکلیٹ، تیل، گھی اور ایک ہزار سی سی سے زائد کی نئی گاڑیوں پر پانچ سے دس فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کی ہے۔ کوئی وزیر خزانہ سے پوچھے کہ کم ازکم عوام کو اتنا ہی بتادیں کہ وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی وجہ سے بجٹ میں متعین کردہ اہداف پورے نہ کیے جاسکے؟ وزیرخزانہ وہ عام آدمی دکھا دیں، جس پر ان نئے ٹیکسوں کا اثر نہیں پڑے گا۔ یہ کون نہیں جانتا کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا ہے۔
Taxes
پہلے ہی عوام کو براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے کچلا جا رہا ہے اب یہ نئے ٹیکسوں کا بوجھ بھی غریب عوام پر ہی پڑ ے گا۔ کیا سالانہ بجٹ پیش کرنے کے بعد جمہوریت کی بجائے آمریت قام ہوگئی تھی؟ ایک جانب حکومت معاشی اہداف اور ترقی کے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور دوسری طرف منافع خوروں اور گراں فروشوں نے منڈی اور بازار میں قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیا ہے۔ حکومتوں کی طرف سے نرخ قابو میں رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے، حکمران طبقہ مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے صرف معیشت کی ترقی کے دعوے کرتا دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان میں حزب اختلاف کی تین بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت کی جانب سے چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف مشترکہ احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے منی بجٹ کو ظالمانہ قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کے دوران احتجاج کریں گے۔ چالیس ارب روپے کے ٹیکس لگانے پر ایک خاتون نےایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں لائیو کال کرکے اسحاق ڈار کو لعن طعن کا نشانہ بنایا ہے۔
Sugar
ایک سوال::: 1992ء میں چینی حکومت نے اچانک چینی کی قیمت میں اضافہ کردیا تھا، چینی قوم نے اِس فیصلے کا بائیکاٹ کرتے ہوئے چینی خریدنا بندکردی، تین ماہ تک کسی ایک شخص نے بھی چینی کا استعمال نہیں کیا، جِس کی وجہ سے چینی کا سارا ذخیرہ رکھے رکھے ہی خراب ہونا شروع ہوگیا۔ عوامی مقاطعے کے باعث چینی حکومت کو اربوں ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا، معیشت تنزلی کا شکار ہو گئی، آخرکار چین کی حکومت نے اپنے عوام سے معافی مانگی اور چینی کی قیمت سابقہ قیمت سے بھی کم کردی اور وعدہ کیا کہ آیندہ ایسا نہیں ہوگا۔ کل اگر اسحاق ڈار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بدترین مہنگائی ہوجائے، آپ کے بچّوں کے تن سے کپڑے بھی چھن جائیں، اُن کے لیے رزق بھی میسر نہ ہو وہ بھوکے رہیں، کیا اُس وقت بھی آپ لوگوں نے خاموش رہنا ہے؟ کم از کم اپنا احتجاج تو ریکارڈ کروائیں۔
بقول اسحاق ڈار ان ٹیکسوں کا اثر “عام آدمی” پر نہیں پڑے گا تو کیا آپ کو پتہ ہے کہ مہنگائی سے محفوظ حکمرانوں کا یہ “عام آدمی” کہاں ملے گا، آیئے تلاش کرتے ہیں، یہ عام آدمی آپ کو پشاور، پنڈی، لاہور یا کراچی کی سڑکوں پر نہیں ملے گا، یہ آپ کو رائے ونڈ، بلاول ہاوس یا بنی گالہ میں ملے گا۔ میں اور آپ تو خاص آدمی ہیں لہذا عام آدمی کےگھر میں داخل ہونا آپ کے اور میرے لیے ممکن نہیں اس لیے صبر کریں اور بقول قتیل شفائی منافقوں میں شامل ہوجائیں دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا