تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی بلاشبہ خالقِ کائنات نے انسان کو شاہکار کے طور پر پیدا کیا ‘انسان کے اندر نیکی و شر کو رکھ دیا ‘انسان جب اچھائی پر آتا ہے تو فرشتے محو حیرت ہو جا تے ہیں اور اگر انسان برائی پر اُتر آئے تو شیطان بھی پنا ہ مانگتا ہے ‘خالقِ کائنات نے تخلیق انسان میں بے پناہ فیاض کا مظاہرہ کیا ہے انسان کو بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے اتنی خوبیوں میں ایک بہت بڑی صفت یا خو بی عشق کی چنگا ری۔ یہ چنگا ری ہر انسان میں ہو تی ہے خو ش قسمت ہو تے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں کو ئی ایک گھڑی ایک واقعہ ایسا بھی آتا ہے جب یہ چھپی ہو ئی عشق کی چنگا ری سلگ کر بھا نبھڑ بن جا تی ہے اور پھر یہ آگ کا بھا نبھر نفس کے رزائل کو جلا کر خا کستر کر دیتا ہے کثافت لطا فت میں ڈھل جاتی ہے۔
انسان سراپا عشق اور مجسمہ نو ر کا روپ دھار جاتا ہے پھر ایسے انسان کو دیکھ کر عقل اپنی انگلی دانتوں تلے دبا لیتی ہے اور چشم فلک آنکھ جھپکنا بھو ل جاتی ہے ‘تا جدار ولایت جنا ب حضرت سری سقطی ایک دن بغداد کے وسیع و عریض میدان میں عشق کے اسرار و رمو پر پر جلال آواز میں خطا ب فرما رہے تھے ہر طرف آہوں کا دھوا ں اُٹھ رہا تھا خشیت الٰہی سے کلیجے پھٹ رہے تھے ہر آنکھ فرط اثر سے اشک بار تھی کامل درویش کی پر سوز آواز سے فضائیں ہوا ئیں لرز رہی تھیں کہ خلیفہ بغداد کا ایک مصاحب بڑی شان و شوکت سے آکر مجلس میں بیٹھ گیا اُس وقت سری سقطی یہ فرما رہے تھے تمام مخلو قات میں انسان سے زیاد ہ ضعیف کو ئی مخلو ق نہیں ہے لیکن با وجود ضعف کے وہ خدا کی نا فر مانی کر نے میں سب سے زیادہ نڈر بہا در ہے یہ الفاظ احمد بن یزید کے دل پر تیر کی طرح پیوست ہو گئے سنتے ہی گھا ئل ہو گئے عشق کی چنگا ری نے ساری آن بان شان ‘غرور ‘خو د پسندی کو آن و احد میں خا کستر کر کے رکھ دیا دل وزیر سے فقیر بن چکا تھا با طن میں عشق کی آگ نے طو فان مچا دیا ‘وعظ کے بعد گھر پہنچا تو دل و دما غ عشق کے رنگ میں رنگے جا چکے تھے ساری رات اضطراب میں گزری ‘صبح ہو تے ہی سر ی سقطی کی بارگاہ میں حاضر ہوا ‘چہرے کے تا ثرات جسمانی حرکات آنکھوں کا خما ر بتا رہا تھا کہ یہ اپنے آپ میں نہیں ہے ‘لر زرتی زبان سے عرض کی حضور رات کا نشتر دل و جگر کے پار ہو گیا ہے عشق الٰہی کی آگ میں جھلس رہا ہوں ‘ظاہر باطن اللہ کے عشق کے علاوہ ہر چیز سے خالی ہو چکا ہے غلام حاضر ہے با رگاہ الٰہی تک جانے کا راستہ بتائیے ‘میری کشتی بیچ منجد ھار میں ہے۔
آپ ساحل تک پہنچا دیجئے حضرت سقطی نے دلنواز شفیق تبسم سے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا صبر شکر سے کام لو رحمت الٰہی اس روگ کے مسافروں کی خو ددستگیری فرماتی ہے اور سن لو کہ خدا کے رنگ میں رنگنے کے صرف دو ہی راستے ہیں عام راستہ فرائض کی پابندی ‘سجدہ عبا دت’ گناہوں سے بچو ‘شیطان کی پیروی نہ کرو ‘مشاغل دنیا سے تعلق رکھتے ہو ئے شاہ مدینہ نبی کریم ۖ کی غلامی کا حق ادا کرو اور دوسرا خاص راستہ یہ ہے کہ دنیا سے بے تعلق ہو جائو قرب الٰہی یا د الٰہی میں اِس طرح غرق ہو جا ئو کہ خدا سے بھی سوائے اسی کی ذات کے کسی دوسری چیز کو طلب نہ رکھو ۔ حضرت کی گفتگو ابھی یہیں تک پہنچی تھی کہ احمد بن یزید کے منہ سے چیخ بلند ہو ئی عشق الٰہی کے چشمے پھو ٹ پڑے بے خو دمستا نہ وار جیب و دامن کی دھجیاں اڑاتے ہو ئے صحرا کی جانب بھاگ گیا کچھ دنوں بعد اُس کی ماں حضرت کی بارگاہ میں آکر درخواست گزار ہو ئی حضور میرا ایک ہی فرزند تھا جسے دیکھ کر میں اپنی پیاس آنکھوں کی تشنگی بجھاتی تھی میری آنکھوں کا نور پتہ نہیں کہاں چلا گیا مجھے کسی نے بتا یا ہے کہ ایک رات وہ آپ کی مجلس میں آیا تھا جہاں اُس کی حالت غیر ہو گئی تھی آپ کے الفاظ نے اُسے دیوانہ مستا نہ بنا دیا اب میں کب تک فرزند کی جدائی کا ماتم کروں گی تو سری سقطی نے فرمایا صبر و شکر سے کام لو تیرا بیٹا ضائع نہیں ہوا جب وہ آئے گا میں تمہیں خبر کر دوں گا۔
خدا کے عاشقوں کا ما تم نہیں کر تے اور پھر چند دن بعد دیوانہ مستا نہ گر دآلودہ چہرے کے ساتھ حضرت سر ی سقطی کی بار گاہ میں حاضر ہوا اُس پر نظر پڑتے ہیں آپ اُٹھے اور اُس کو گلے لگا یا اور ماں کو اطلا ع دی کہ تمہا را نو ر نظر آگیا ہے آکر مل لو ‘ماں دیوانہ وار بہو اور پو تے کے ساتھ روتی پیٹتی حاضر ہو ئی بیٹے کی بلا ئیں لیں اور چومنا شروع کر دیا فرزند تم کدھر گئے تھے تیرے فراق میں ہما رے آنچل بھیگ گئے آنکھیں پتھر ا گئیں آواپس گھر چل اُجھڑے گلشن کو پھر آباد کر بیوی نے آہیں بھرتے ہو ئے کہا میرے سرتاج آخر ہم سے کیا غلطی ہو ئی کہ آپ روٹھ کر ہی چلے گئے ‘بچے کو یتیم کر دیا تمہا رے سوا ہما رے ارمانوں کا نگران کون ہے ماں اور بیوی نے لاکھ منتیں سماجت واسطے دئیے لیکن دیوانہ خدا ہو ش میں آنے کو تیار ہی نہ تھا عشق کا روگ اُ سکی ہڈیوں تک اُتر چکا تھا ہزار بار جھنجھوڑ نے پر بھی ہو ش میں نہ آیا دیوانہ عشق کا کیف دیکھنے کے لیے سارا شہر اُمڈ آیا تھا مستا نہ نے ایک بار پھر نعرہ مارا اور بے خودی میںاٹھا اور صحرا کی طر ف جانے لگا بیوی نے دوڑ کر قدموں سے لپٹ گئی دامن کو پکڑ کیا اور کہا ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو اگر جانا ہی ہے تو اپنے بچے کو بھی لیتے جا ئو احمد بن یزید نے بچے کو پکڑا اُس کا قیمتی لباس اتار کر تار تار کر دیا اپنے پھٹے پرانے کمبل میں بچے کو لپیٹ لیا اور چلنے لگا یہ منظر دیکھ کر ماں اور مجمع دھا ڑیں ما ر کر رونے لگا دیوانہ مستانہ ہر چیز سے بے نیاز ہو چکا تھا احمد بن یزید نے ماں بچے کو دیکھا اور ایک نعرہ مستا نہ بلند کیا اور صحرا کی طرف نگا ہوں سے اوجھل ہو گیا پھر ایک چاندنی رات حضرت سری سقطی نماز عشا ء کے بعد چہل قدمی فرمارہے تھے کہ ایک شخص نے آکر سلام پیش کیا اور کہا حضور آپ کے لا ڈلے مستانے دیوانے مرید کا پیغام لے کر آیا ہوں۔
دیوانے نے عرض کی ہے کہ میری رحلت کا وقت قریب آگیا ہے ایسے نازک مرحلے پر حضور کی تشریف آوری میری تسکین خاطر کا ذریعہ ہو گی یہ خبر سن کر حضرت سری سقطی آبدیدہ ہو گئے احمد بن یزید کو یا دکر کہ غمزدہ ہو گئے آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور حاضرین مجلس سے کہا خدا کا ایک بندہ مسکین جس نے عشق کے سیلاب کی تند و تیز موجوں کے صحرائے عشق میں شور بر پا تھا جس کے جنون سے عشق سے صحرا و پہاڑ لرزتے تھے جس کی دیوانگی اور مستانگی سے چشم فلک حیران تھے فرشتے پریشان تھے افسوس کہ آج اُس کا آخری وقت آگیا ہے آج رات کی تنہا یوں کا پر سوز فریاد ی ‘ویرانوں کا عبا دت گزار اِس دنیا کو ویران کر نے جارہا ہے آئو اپنی آنکھوں کو اس چراغ حرم کی روشنی سے منور کر یں آخری بار دیکھیں اور پھر آپ اُس اجنبی شخص کے ساتھ چل پڑے اور پھر کچھ دور جا کر اجنبی نے ایک ضعیف و لاغر ہڈیوں کے ڈھانچے کی طرف اشارہ کیا یہی ہے مستا نہ خدا جس نے دم رخصت آپ کو آواز دی ہے۔
شہنشاہ ولایت سری سقطی نے بالین کے قریب بیٹھ کر آواز دی احمد بن یزید نے آنکھیں کھول دیں اور گلو گیر آواز میں بو لا مرشد کریم گواہ رہنا میں تو حید الٰہی اور رسالت محمدی ۖ کے اقرار پر دم دے رہا ہوں ایک بندہ سیا ہ کار اپنے رب کے حضور اس حال میں جا رہا ہے کہ نامہ اعمال گنا ہوں سے بو جھل ہے اسے زندگی کی طویل مہلت ملی لیکن وہ اپنے پروردگار کی خشنودی حاصل نہ کر سکا الفاظ ٹوٹ ٹو ٹ کر آزاد ہو رہے تھے اشکبار آنکھوں سے مو تی ٹپک ٹپک کر گریبان میں جذب ہو رہے تھے مستانے کی پر سوز آوازسے فضامیں درد ناک ارتعاش جا ری تھا لرزتے ہو نٹوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جا ری تھا کہ روح عالم بالا کی طرف پرواز کر گئی ‘حضرت سری سقطی سے مرگ عشق کا یہ درد ناک منظر دیکھا نہ گیا شدت غم سے آنکھیں ڈبڈبا آئیں آسمان کی طرف دیکھا اور آہ بھری اے بے نیاز رب تیری بے نیازی پر قربان باغیوں کو حریر و دیبا کی مسند اور مخملی پھولوں جیسے بستر اور تیری مملکت کے دیوانے عاشق مسکینوں کو پھٹا ہوا بو ریا بھی نصیب نہیں یہ کہہ کر جونہی شہر کی طرف پلٹے تو چاروں طرف سے انسانوں کا سمندر چلا آرہا تھا پو چھا یہ لوگ کدھر جارہے ہیں تو لوگوں نے جواب دیا ابھی ابھی آسمان سے غیبی آواز آئی ہے کہ جو لو گ خدا کے ولی کے جنا زے میں شریک ہو نا چاہتے ہو آجا ئے تو حضرت سری سقطی بو لے واہ مولا تیری شان بندہ نوازی زمین پر ایڑیا ںرگڑ رگڑ کر مرنے والوں کا یہ اعزاز عمر بھر جو دشت ِ غربت میںزندگی کے شب و روز گزارتا رہا آج بغداد شہر اُس کے دیدار کے لیے اُمڈ آیا اُس کے قدموں میں آ گیا۔