تحریر: سید انور محمود دو مارچ 1963 کو کراچی میں پیدا ہونے والے سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے بارئے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی خوش اخلاق، ملنسار، منکسر المزاج اور پرخلوص انسان ہیں۔ وہ گورنر سندھ کی حیثیت سے اقدار کے ایوانوں میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی آخری نشانی تھے جواب رخصت ہو چکے ہیں اوراس کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) جس کی سندھ میں کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے، اس نےاپنے ایک حامی اسی سالہ بزرگ سابق چیف جسٹس سعیدالزماں صدیقی کو جو دو مرتبہ مسلم لیگ (ن) کے ناکام صدارتی امیدوار بھی رہ چکے ہیں گورنر سندھ مقررکیا، جو اب سندھ کے گورنر کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں۔سندھ میں نیا گورنر مقرر کرنے سے پہلے وفاقی حکومت نے نہ تو صوبہ سندھ کی حکمراں پیپلز پارٹی سے مشورہ کیا اور نہ ہی سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ایم کیو ایم (پاکستان) نے وفاقی حکومت سے بھرپور شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایم کیو ایم صوبہ سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے اور یہ مناسب ہوتا کہ گورنر کی تبدیلی کے فیصلے پر صوبہ کی دوسری بڑی نمائندہ جماعت کو بھی اعتماد میں لیا جاتا، ڈاکٹر عشرت العباد ایم کیو ایم کے نامزد گورنر تھے اور انہوں نے صلاحیت کے ساتھ صوبے کی خدمت کی۔
ڈاکٹرعشرت العباد نے کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں طالب علمی کے زمانے میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ایک کارکن کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔وہ 1990کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پرصوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے، بعد میں وہ مرحوم وزیراعلیٰ جام صادق علی کی کابینہ میں صوبائی وزیر بھی رہے۔ جون 1992 میں جب کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہواتو ڈاکٹر عشرت العباد منظر سے غائب ہوگئے اور ایک سال کے بعد لندن میں نمودار ہوئے ، وہاں انھوں نے سیاسی پناہ حاصل کر لی تھی۔ ایک زمانے میں ڈاکٹر عشرت العباد ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کے بہت قریب سمجھے جاتے تھےاورجب الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر عمران فاروق کو اختلافات کی بنیاد پر کنوینرشپ سے ہٹایا تو انہیں قائم مقام کنوینر مقرر کیا تھا۔الطاف حسین کے کہنے سے 2002 میں ڈاکٹرعشرت العبادبرطانیہ سے پاکستان آئے ، انہیں27دسمبر 2002کواسوقت کے صدر پرویز مشرف نے گورنرسندھ مقرر کیا تھا۔
MQM
ڈاکٹر عشرت العباد خان 27 دسمبر 2002 سے 9 نومبر 2016 تک سندھ کے گورنر رہے جو ایک ریکارڈ مدت ہے، یہ مدت 13 سال 10ماہ اور13دن یا 5161دن پر محیط ہے ۔ ڈاکٹرعشرت العباد نے چارپاکستانی صدروں پرویز مشرف، میاں محمد سومرو، آصف علی زرداری اور ممنون حسین کے ماتحت کام کیا، وہ جب گورنر بنے تو پاکستان کے سب سے کم عمر گورنر تھے، سندھ کے گورنر کی حیثیت سے وہ ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ میں رابطے کا اہم ترین ذریعہ بھی بن گئے تھے، گورنر شپ کے عہدئے پر رہتے ہوئے وہ سیاسی توڑ جوڑ کے بھی ماہر ہوگئے تھے۔مختلف سیاسی حلقے ان سے ایسے خوش تھے کہ پرویز مشرف کے متعین گورنر کو نہ آصف زرداری نے ہٹایا اور نہ ہی نواز شریف نے۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے انصار برنی کے ساتھ ملکرصومالی قزاقوں سے پاکستانی اوردوسرئے ملکوں کے باشندوں کو رہاکروانے کے لیےجو کامیاب کوششیں کیں، وہ انتہائی قابل تعریف اور انسان دوستی کی بہترین مثال ہے، عالمی سطح پر بھی اُن کو اس کامیابی پر کافی شہرت ملی تھی۔
سابق صدر آصف زرداری نے 2012 میں ڈاکٹرعشرت العباد کو نشان امتیاز دیا تھا۔ نشان امتیاز دینے کی وجہ ڈاکٹر عشرت العباد کی گورنر کی حیثیت سے وہ پیشہ ورانہ خدمات تھیں جو انہوں نے’’غیر ملکی سرمایہ کاری،تعلیم، امن و امان کے قیام، فن و ثقافت اور زندگی کے دیگر شعبہ جات‘‘ میں سر انجام دیں تھیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شاید یہ ایک سیاسی رشوت تھی کیونکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ 2010 سے 2013 کراچی کی تاریخ کے بدترین سال رہے ہیں۔ 2012 میں مرکزی بینک کے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 12-2011 میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 68 کروڑ ڈالر رہا تھا جو مالی سال 11-2010 میں ایک ارب 90 کروڑ ڈالر سے بھی زائد تھا۔ تعلیم کا برا حال تھا 2012 میں آغا خان یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق سندھ کے ستر فیصد پرائمری اسکولوں میں طلبہ کو سارا دن میں صرف پندرہ منٹ پڑھایا جاتا تھا۔ امن و امان کے قیام کے حوالے سے کراچی میں لوٹ مار، بھتہ خوری، لاقانونیت، قتل وغارت گری اور دہشت گردی میں 2012 میں دو ہزار سے زیادہ افراد قتل ہوئے تھے۔
Altaf Hussain
ان حالات میں گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کی اپنی پارٹی ایم کیو ایم کراچی کی بدترین امن و امان کی صورتحال پر بھرپور احتجاج کررہی تھی اور حکومت سے علیدگی بھی اختیار کرچکی تھی۔ فن و ثقافت کبھی کراچی کی پہچان ہوا کرتے تھے لیکن 2012 میں نہ فن تھا اور نہ ہی ثقافت ، 2012 میں فن اسلحہ چلانے اور ثقافت انسانی قتل کو کہتے تھے۔ ان حالات میں زندگی کے دیگر شعبہ جات زوال پزیر تھے۔ صوبہ سندھ میں انتہائی مخدوش، پریشان کن اور پر انتشار صورتحال کے باوجود ڈاکٹر عشرت العباد کو نشان امتیازدیا گیا جو سندھ اور خاصکر کراچی میں رہنے والوں کی سمجھ سے باہر تھا۔
کراچی آپریشن کے دوران جب ایم کیو ایم کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو الطاف حسین کو احساس ہوا کہ ڈاکٹر عشرت العباد ان سے دور جاچکے ہیں۔ ایک سال قبل الطاف حسین نے نہ صرف انہیں ایم کیو ایم سے نکال دیا تھا بلکہ ان کے ساتھ اپنے سماجی رشتے بھی توڑ لیے ۔ بظاہر تو ابھی ڈاکٹرعشرت العباد کو گورنر سندھ کے عہدئے سے ہٹانے کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی ، چودہ سال بعد ایسا کیا ہوا کہ انکو اچانک گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا،ہوسکتا ہے انکی ایم کیو ایم سے علیدگی کے بعد ان کی اہمیت کم ہوگئی تھی یااس وجہ سے کہ حال ہی میں پاک سرزمین پارٹی کے چیرمین اور سابق ناظم کراچی مصطفی کمال نے ان پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے، جس کے جواب میں انہوں نے بڑی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مصطفی کمال اور ایم کیو ایم پر الزامات لگائے ۔ اگرچہ بعد میں ڈاکٹرعشرت العباد نے اپنے رویے میں تبدیلی پر افسوس کا بھی اظہار کیا، لیکن شایداقتدار کے ایوانوںمیں ان کے اس کردار کو پسند نہیں کیا گیا اور ڈاکٹرعشرت العباد کو اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہونا پڑا۔انتظار کیجیے تھوڑئے سے عرصے کے بعد سب حقیت سامنے آ جائے گی۔