تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم پچھلے دِنوں نو مولود پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال کی جانب سے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی بے نکتہ اور بے داغ شخصیت پر طرح طرح کی جانے والی الزام تراشیوں کے بعد ہوئی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا بالآخر برداشت کی تمام حدوں کو توڑتے ہوئے آج تحمل مزاجی اور شگفتگی میں اپنی منفرد پہنچان رکھنے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان بھی الزام تراشی کی سیاست میں کسی سے پچھلے نہیں رہے ہیں اور یوں آج اُنہوں نے کھراسچ بول کر یا اپنے مخالفین پر محض الزام تراشی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ ماضی میں اِن کا اپنے مخالفین کی ساری حرکتوں اور کرتوتوں کو دیکھ کر بھی خاموش رہنا ایک بڑی غلطی تھی واقعی اِنسان خطا اور خسارے کا پتلاہے مگر اَب جیسے کہ اُنہوں نے سوچ لیا ہواکہ وہ اپنی خاموشی توڑکریں اور برداشت کی حدوں سے باہر نکلیں اور مُلک اور قوم کے سامنے اپنے مخالفین کی ساری پوشیدہ حقیقتیں لائی جائیں۔
قوم کو وہ سب کچھ بتا دیاجائے جو اَب تک سینے میں دفن ہے جو آج تک زبان پر نہیں آیاتھاآج اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ متحدہ قوومنٹ پاکستان کے بطن سے ہی علیحدہ ہونے والی نومولود PSP کے سربراہ مصطفی کمال اگر گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان کی شخصیت پر سیاہ دھبہ لگانے کے خاطر اُن کی ذات پر الزام تراشی کے تیر نہیں چلاتے تو عین ممکن تھاکہ گورنرسندھ بھی جیسے پندرہ سا ل سے اب تک خوش تھے یہ مزید پندرہ سال ہی کیا ساری زندگی بھی خاموش رہ لیتے مگراِن کے مخالفین کو یہ برداشت نہ ہوااور اُنہوں نے اپنی دانش سے تو گورنر سندھ پر الزام تراشیوں کے زہریلے نشتر چلاکر بہت اچھاکیا مگر درحقیقت وہ اپنے منصوبے میں ناکام ہوئے ہیں آج گورنر سندھ کی اپنے مخالفین سے متعلق تحقیقا ت ہونے تک حقا ئق پر مبنی انکشافات سے اتناضرور ہوگیاہے کہ سندھ اور بالخصوص کراچی کی سیاست میں بہت سی ایسی انھونی ہونے والی ہے جس کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔
گزشتہ دِنوں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کی اپنے مخالفین پر کی جانے والی الزام تراشیوں کی وجہ سے مُلکی سیاست میں جیسی ہلچل پیداہوگئی ہے اَب آئندہ دِنوں میں اِس کے جیسے بھی اثرات مرتب ہوںگے؟؟ہمیں اِس کابھی انتظارکرناچا ہئے۔ ہاں البتہ، بالخصوص کراچی اور بالعموم پاکستانی قوم کو بہتری کی اُمید ضرور رکھنی چاہئے کیونکہ ایک بڑے لمبے عرصے یعنی کہ پندرہ سال بعد گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان نے اپنے مخالفین سے متعلق رسمی اور رٹِ رٹائے جملوں کے علاوہ 19اکتوبر 2016کوجس انداز سے سچ بولتے ہوئے لباب کُشائی کی ہے اِس سے گورنرسندھ کے جتنے بھی نئے پرانے رقیب ہیں اِن کی سیاست کے گرد کھیراضرو ر تنگ ہوجائے گا اور اَب اِن کی اِدھر اُدھر جیسی تیسی نئی پرانی بچھی سیاسی بساط ہے وہ بھی بہت جلد پلٹی جاسکتی ہے اور گورنر سندھ کا اپنے مخالفین کے خلاف علمِ حق و سچ اُٹھاکر نکلنا اِس بات کا غماز ہے کہ آج گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا پارٹی سے نہیں ہے بلکہ یہ صدر پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے نمائندے ہیں اور وہ خالصتاََ ایک محب وطن پاکستانی ہیںاَب جو پچھلی چا ردہائیوں سے لسانیت اور تعصب اور فرقہ واریت کی وجہ سے دہشت گردی کا شکاررہنے والے شہرِ قائد کراچی کوبلا تفریق ہر طرح کی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے پاک کرنا چاہتے ہیں یہاں ایک راقم الحرف ہی کی نہیں بلکہ اہلیان ِ کراچی اور ساری پاکستانی قوم کی بھی ایک دُعا ہے کہ اللہ کرے کہ ڈاکٹرعشرت العباد خان جس حق و سچ کا علم لہراتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اَب مصالحتوں اور مفاہمتوں کا شکار ہوئے بغیر اِس علمِ حق و سچ کو بلندرکھیں اور اَب اُن لوگوں کی الزام تراشی کا اُس طرح سے جواب دیں جیسا کہ حکومتی نمائندے اپنے مخالفین کو دے کراُنہوںدبا دیاکرتے ہیں تاکہ پھر کوئی کسی پر ایسی الزام تراشی نہ کرنے پائے۔
Corruption
مشہور جملہ ہے کہ” اگر کسی قوم کو پرکھنا ہے تو اِس قوم کے سیاستدانوں کے کردار کو پرکھو“ مگرہمارے یہاںسوال یہ پیداہوتا ہے کہ آج اگر ہمیں ایسا کچھ کرنے پڑے توہمیں کن سیاستدانوں کے کون سے کردار کو پرکھناپڑے گا ؟؟ یہاں تو سارے ہی سیاستدان ایک سے بڑھ کر ایک ہیںاور سب ہی کی اپنی اپنی سیاسی مساجد ہیںتو ہمیںکیا سب کے کردار کو پرکھنا پڑے گا یا کسی ایک کے کردار سے اندازہ کر یں لیںکہ قوم کیسی ہے ؟؟ اگر ایک سیاستدان کے کردار کو دیکھ کر قوم کی اچھی یا بُری حالتِ زارکا اندازہ لگا ئیں تو بھی یہ غلط ہوگا درحقیقت ہمیں درست فیگر تو تب ہی ملے گی کہ جب ہم اپنی قوم کے مجموعی سیاستدانوں کے کردار کو پرکھیں پھر کوئی رائے قائم کریں مگر ابھی صرف یہ عرض کرناہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے قوم کو قوم ہی کب رہنے دیاہے اِنہوں نے توایک دوسرے کی کرپشن سے کمیشن تک کی پردہ داری اور اپنی الزام تراشی کی سیاست کی وجہ سے ساری قوم کو ہجوم میں تبدیل کردیاہے ہماری قوم ہوتی تو ہم اپنے سیاستدانوںکے کردار کو پرکھتے ہم تو ہجوم ہیں اور ہجوم کسی کو کیا پرکھے گا۔
بہرحال ، اِن دِنوں ہمارے یہاں توسیاست میں الزام تراشی کا کھیل جاری ہے اِس کھیل میں جس سیاست دان کے ہاتھ میں اپنے مخالفین سے متعلق جتنی زیادہ الزام تراشیوںکی گٹھڑی بھاری یا وزنی ہوگی وہ اُتنا ہی پاک صاف اور پَوتر سمجھاجارہے اور جس کے پاس اپنے کسی مخالف کے بارے میں چند ایک الزاما ت ہیںاُس کے بھلے سے یہ الزامات حقا ئق اور سچ پر ہی مبنی کیوں نہ ہوںوہ جھوٹا اور نا کام سیاست دان گردانا جارہاہے اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ اِن دِنوںسرزمینِ پاکستان میں وفا ق سے لے کر صوبوںاور صوبوں سے شہروں اور شہروںسے گلی محلوں تک سیاسی الزام تراشیوں کی جس قسم کی بساط پھیلادی گئی ہے اِس سے تو سب ہی سیاستدان ننگے دِکھائی دے رہے ہیں اور سب کا کیا دھرا عوام کے سامنے ایسے آگیاہے جیسے قصائی بکرے کو ذبح کرنے کے بعد بکرا کی کھال اُتارکر بکرے کو بن کھال کاکردیتاہے گویا کہ آپس میں سیاسی کھیلاڑیوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی وجہ سے قوم کی نظر میں سیاستدان برہنہ ہوگئے ہیں جب مُلک میں الزام تراشی کی سیاست زور پر ہوتو مُلک اور قوم کی خاک ترقی اور خوشحالی کے بارے میں کوئی کچھ سوچے گااور خاک ترقی اور خوشحالی در آئے گی۔
اُدھر گزرے زمانے میں سرہیرلڈولسن نے سیاست کے حوالے سے کہا تھاکہ ’سیاست میں ہر ہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتا ہے “ممکن ہے تب ایسا ہوتا ہومگر آج کی سیاست اور اِس کے حالات یکدم بدل چکے ہیں اور ہمارے یہاں تو جیسے سیاستدان سیاست کی روح اور اِس کا مقصد سمجھے بغیر ہی سیاست کرنے لگے ہیں حالانکہ سیاست ایک پا کیزہ اور ایمانی جذبوں کو تقویت دینے کا نام ہے جیسا کہ گوئٹے کا کہناہے کہ ” سیاست اِنسان کی آسمانی سرگرمی ہے جس سے لاکھوں اِنسانوں کی زندگیاں اور تقدیریں وابستہ ہوتی ہیں“ گوئٹے نے اپنے اِس ایک جملے میں سیاست کا سارا فلسفہ بیان کردیاہے بشرطیکہ سیاسی میدان میں اُترنے والے سیاسی کھلاڑی اِسے سمجھیں اور عمل کریںتو اِس میں بہت کچھ پوشیدہ ہے اور درحقیقت سیاست کی روح ہی یہی ہے مگرہمیں اِس سے بھی انکار نہیں کہ ہمارے یہاں جیسے سیاستدانوں نے سیاست کو دولت کمانے کا پیشہ بنا دیاہے جس میں کسی قا بلیت اور مہارت کی ضرورت نہیں ، بس سیا ستدانوں کے ہاتھ میں اپنے مخالفین کے لئے ا لزام تراشی کی پٹاری ہونی چاہئے پھر سیاست اور سیاست کے سارے مہرے ہاتھ میں ہوں گے جِسے جیسا چاہو استعمال کرو پھر سرہیرلڈولسن کے اِس قول کوسیا ست میں ہر ہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتا ہے اِسے بھی لپیٹ کر ایک طرف رکھ دو اورجھٹلا دو کہ سر ہیرلڈولسن کا کہنا غلط ہے اوریہ دعویٰ کر دو کہ” سیاست میں ہر گھنٹہ ایک اہم گھنٹہ ہوتا ہے “ جیسا کہ سرزمینِ پاکستان میں ہر سیاسی کھلاڑی اِسے سچ کردکھا رہے ہیں،اور ہر لمحے اور ہر سانس اپنے مخالفین کی کمزوریوں کی کھوج میں لگاپڑاہے اور سیاسی دُشمنی میں اِس حد تک جارہاہے جہاں سے واپسی اور پھر ہاتھ ملانے کا راستہ ہی ختم ہوجاتا ہے پھر سیاسی بھٹی میں آہستہ آہستہ خود بھی جل بھون کر خاک میں مل جاتاہے۔
گالی دینے والوں کو جواب دینا بھی توہین سمجھتاہوں، ہم سڑکیںبناتے تم ناپتے رہوگے“ جیسے جلے کٹے اور اشتعال انگیز اور نفرت کو ہوا دینے والے جملے اور دو نومبر کو عمران خان کے اسلام آباد کے احتجاجی جلسے ودھرنے کو بزور طاقت روکنے سے اجتناب برتنا چاہئے کیونکہ ایسا کچھ کرنے سے قبل وزیراعظم نوازشریف اور اِ ن کی پارٹی اور کابینہ کے اراکین کو اتنا ضرور سوچ لینا چاہئے کہ اِن سے ضرور دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کچھ ایسی سنگین غلطیاں سرزد ہوگئیں ہوں گیں آج جن کی وجہ سے عمران خان کو وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی حکومت کے خلاف انصاف کے حصول کے خاطر عدالتوں اور حکومت کے خلاف احتجاجوں اور دھرنوں کی کامیابیوں کے لئے عوام کے دروازوں اور دہلیزوں تک جانا پڑرہاہے اور وزیراعظم نوازشریف و فیملی کی (پانامالیکس) اورحکومت کی کرپشن و کمیشن اور دیگر معاملات کے خلاف ڈگڈگی بجاتے ہوئے سڑکوں پر آنا پڑرہاہے یقینا عمران خان کی ڈگڈگی سے” مُلک سے کرپشن و کمیشن مکاو ¿۔۔۔ مُلک سنوارو “ کی آواز آرہی ہے جس سے وزیراعظم نوازشریف اور ن لیگ کے وزراءخوفزدہ ہورہے ہیں مگر پھر بھی وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ ” ڈگڈگی والوں سے ڈرنے والے نہیں“ آج وزیراعظم نوازشریف کا یہ جملہ بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ کبھی آمر(ر) جنرل پرویزمشرف نے کہا تھاکہ”میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں“اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ اپنے احتساب کے عمل سے بچنے کے لئے بیماری کا بہانہ بنا کر مُلک سے نکل گئے جو آج تک واپس نہیںلوٹے ہیں کہیں 2نومبریا اِس کے بعد ڈگڈگی والوں سے نہ ڈرنے والوںکا بھی ایسا ہی حشر نہ ہو۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com