ہماری آئی ایس آئی ہی ہدف تنقید کیوں؟

Hamid Mir

Hamid Mir

کیا ہم ولی بابر قتل کیس کے نیٹ ورک کو بھلا سکتے ہیں جس کیلئے حامد میر سب سے زیادہ متحرک رہے ؟ نائن الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعد ہم یقیناً ایک حلیف سپر پاور کے ناجائز مطالبات کی زد میں ایک ایسی شاہراہ پر سرپٹ بھاگتے چلے جارہے ہیں جس کا تاحدِ نظر کوئی اختتام نہیں بھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ پیچھے مڑ کر دیکھنے کا اختیار نہیں ایک ایسی جنگ کی آگ میں ہماری قومی سلامتی کا بدن جل کر خاکستر ہوتا جارہا ہے جو کل ہم نے ایک حلیف سپر پاور کے کہنے پر مجاہدبن کر افغان سر زمین پر لڑی اور آج اُن دہشت گردوں (ایک سپر پاور کے مقاصد کی خاطر جو کل مجاہدین تھے )کے خلاف پاک دھرتی میدان جنگ ہے۔

نظریاتی سرحدوں کی محافظ عسکری قوت کو ہم نے دانستہ پرائی جنگ کا ایندھن بنا دیا ہے اس جنگ میں لاشیں اُٹھا اُتھا کر ہمارے ہاتھ شل اور اذہان مائوف ہیں 70ارب ڈالر کی اقتصادی تباہی ہمارا مقدر ہوچکی 50ہزار معصوم افراد بشمول پاک افواج کے شہدا کے لہو کی لکیر مزید گہری ہوتی جارہی ہے آپ کے کان نہ ہوں تو آپ قوت سماعت سے قاصر ہو جاتے ہیں آپ کی آنکھیں نہ ہوں آپ قوت بصارت سے محروم ہو جاتے ہیں اور اگر آپ کا دماغ نہ ہو تو آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔

کیا آئی ایس آئی وطن عزیز کی آنکھیں ،کان اور دماغ نہیں ؟سابقہ دور میں زرداری حکومت کی حلیف قوت اقتدار ایم کیو ایم نے آئی ایس آئی کو اپنا حدف تنقید بنایا اور اس کے خاتمے کی بات کی تاکہ ہمیں وطن دشمنی میں کھل کھیلنے کا موقع ملے میمو اسکینڈل کو لے لیں اس میں بھی نشانہ ہماری آئی ایس آئی اور عسکری قوت تھی جس میں باقاعدہ باور کرایا گیا کہ جنرل کیانی او سخت اور فوری براہ راست پیغام دینے میں آپکی براہ راست مداخلت ہونی چاہیئے اس پیغام میں تنبیہ کی گئی کہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا سے مطالبہ کرے کہ وہ سویلین نظام کر گرانے کے سلسلہ میں کوششیں ترک کر دیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی یہ بھی کہا گیا کہ واشنگٹن کی سیاسی فوجی حمایت سویلین حکومت کی مضبوطی پر متنج ہوگی آئی ایس آئی کے ایس سیکشن پر براہ راست طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلقات برقرارا رکھنے کے امور کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا گیا۔

30اگست 2011 کو حکومتی حلیف جماعت ایم کیو ایم نے آئی ایس آئی پر پابندی کیلئے ٹونی بلیئر کو باقاعدہ خط لکھا خط میں طالبان تنظیموں کی سر پرستی بھی آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ آئی ایس آئی پر پابندی دیگر مطالبات کی منظوری کی صورت میں بین الاقوامی ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے ایم کیو ایم بھر پور تعاون کرے گی یہ ایک طرح سے اپنے گھر میں کسی غیر کو مداخلت کی دعوت تھی 12 نومبر 2011 کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں تب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار نے آئی ایس آئی کو یوں ہدف تنقید بنایا ”آئی ایس آئی کی کارستانیاں پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے لائیں گے۔

ایبٹ آباد میں 2مئی کا واقعہ در اصل ایک سپر پاور کا گیم پلان تھا جس میں آئی ایس آئی کو ناکام سکیورٹی ایجنسی دکھانے کیلئے منصوبہ ساز دشمنانِ وطن نے ڈرامہ کیا جس کی ریہرسل ہماری سرزمین پر ہوئی اور سکرپٹ کرزئی قصرِ صدارت میں لکھا گیا وکی لیکس نے انکشاف کیا کہ امریکہ آئی ایس آئی کو طالبان ،القاعدہ ،حزب اسلامی ،اسلامک جہاد ،چیچنیا کی سبوتاژ بٹالین ،ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی اور اخوان المسلیمین جیسی دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔

2008ء میں افغانستان کے دارالحکومت قابل میں واقع بھارت سفارت خانے پر ایک خود کش کار بم حملے میں 40افراد ہلاک اور 140سے زائد زخمی ہوئے افغانستان کے کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی نے بھارتی زبان بولتے ہوئے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جبکہ بھارت نے دبے الفاظ میں حملے کی ذمہ داری آئی ایس آئی پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی حالانکہ افغانستان کے حالات ایسے ہیں کہ طالبان سے چھینی گئی حکومت کے ردِ عمل میں خود کش حملے روز کا معمول ہیں۔

ISI

ISI

زرداری حکومت نے آئی ایس آئی کو اپنے زیر کنٹرول کرنے کیلئے وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا پروگرام بنایا 26 نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملہ کے حقائق کو منظر عام پر لانے کا سہرا بھی ہماری آئی ایس آئی کا ایک عظیم کارنامہ ہے امریکی انٹیلی جنس اداروں نے حقائق کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنے اور اپنے آپ کو بری الذمہ قراردینے کیلئے جھوٹی اور من گھڑت رپورٹس پیش کیں مگر جب آئی ایس آئی نے ٹھوس ثبوت پیش کیئے تو اُسے ذمہ داری قبول کیئے بنا چارہ نہ تھا یہاں جنرل شجاع پاشا جیسے سپوت کو داد نہ دینا زیادتی کے زمرے میں آئے گا جنرل شجاع پاشا کے جرات مند اور ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر اس موقف کو جھٹلایا جاسکتا ہے کہ امریکیوں کو یہ کہ کر خاموش کرادیا کہ ”My God is ALLAh not USA بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کا ایک خصوصی ونگ سائوتھ بلاک کے نام سے متحرک ہے جس کا کام ملکی اور غیر ملکی خصوصاً پاکستانی متشدد ،لبرل صحافیوں ،دانشوروں ،این جی اوز کے تنخواہ داروں سے ایسے مضامین ،کتابیں ،ڈرامے ،ڈاکو منٹریز ،ریسرچ پیپرز وغیرہ تیار کرواناہے جس سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ اس خطے بلکہ دنیا بھر کو جس طرح القاعدہ ،طالبان سے خطرات لاحق ہیں بالکل اُسی طرح آئی ایس آئی سے لاحق ہیں ایک کتاب ”پنجابی طالبان ”میں مصنف نے مختلف حیلوں بہانوں سے آئی ایس آئی کے خلاف یوں بکواس کی ہے کہ دراصل پاکستان اور بیرون پاکستان دہشت گردی کا ذمہ دار یہی ادارہ ہے۔

آئی ایس آئی ایک عرصہ سے دشمنانِ وطن کا ہدف ہے اس میں شدت اُس وقت سے ہء جب بھارت امریکہ کے ساتھ جوہری تعاون کے معاہدے کو انتہائی عجلت میں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ہمارے ہزاروں عسکری نوجوان دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں امریکی دبائو پر انڈیا افغانستان ٹرانزٹ معاہدہ طے پا چکا ہے ایسے محض آئی ایس آئی وطن عزیز کے خلاف ہونے والی سازشوں کو قبل از وقت بے نقاب کرکے وطن عزیز کا بالواسطہ طور پر پر تحفظ کرنے میں مصروف عمل ہے وطن عزیز کے محب وطن حلقوں کو یہ یاد رکھنا چایئے کہ استحکام پاکستان اور آئی ایس آئی لازم و ملزوم ہیں آئی ایس آئی کی بقا میں پاکستان کی بقا ہے پوری قوم آئی ایس آئی کی حب الوطنی کو اپنے ایمان کا حصہ تصور کرتی ہے کیا۔

حامد میر پر حملہ ہوا تو یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح میرے ذہن کی سکرین پر چلنے لگے اور مجھے لگا جیسے ملک دشمن طاقتیں اسرائیل کی موساد ،امریکہ کی سی آئی اے اور بھارت کی راء اپنے مذموم عزائم کی کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔

M.R,Malik

M.R,Malik

تحریر : ایم آر ملک