انیس اپریل کی شام سوا پانچ بجے کراچی ائر پورٹ کے قریب حامد میر اپنی گاڑی پر موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔ چند منٹ بعد ہی تمام ٹی وی چینلز پر حملے کی خبر نشر ہوئی۔ اس کے ایک گھنٹے بعد جیو نیوز نے حامد میر کے بھائی عامر میر کے حوالے سے حملے کا ذمہ دار ڈی جی آئی ایس آئی کو قرار دے دیا۔
پھر جیو نیوز پر آئی ایس آئی کے خلاف نان سٹاپ مہم شروع ہو گئی اور مسلسل آٹھ گھنٹے تک لفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر لگا کر دفاعی ادارے کی ہزرہ سرائی کی جاتی رہی۔ دفاعی ادارے کے خلاف جیو کی مہم کی مختلف حلقوں کی طرف سے مذمت کی گئی اور اس پر شدید دباؤ پڑا تو میڈیا گروپ نے اپنے الزام کو عامر میر کا انفرادی بیان قرار دے دیا۔ اس حملے کے بارے میں حامد میر نے چھے دن تین متضاد بیانات دیئے ہیں۔ حملے کی شام عامر میر کے حوالے سے کہا گیا کہ حامد میر نے بیان دیا تھا کہ اگر انہیں قتل کر دیا گیا تو ذمہ دار ڈی جی آئی ایس آئی لفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام ہوں گے۔ 24 اپریل کی شام حامد میر کی طرف سے میڈیا کو باضابطہ بیان جاری کیا گیا جو ان کے بھائی عامر میر نے پڑھ کر سنایا۔
حامد میر نے اس بیان میں ڈی جی آئی ایس آئی کا کسی موقع پر نام نہیں لیا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ موجودہ حالات میں وہ سب سے زیادہ خطرہ آئی ایس آئی سے محسوس کرتے ہیں لیکن چند گھنٹے بعد آغا خان اسپتال میں پولیس ٹیم کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے حامد میر نے آئی ایس آئی کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ وہ فائرنگ کرنے والوں کو نہیں جانتے کار میں دفتر جاتے ہوئے انہوں نے فائرنگ کی آواز سنی پھر تکلیف اور خون بہنے سے پتہ چلا کہ گولیاں انہیں لگیں ہیں۔سندھ اسمبلی نے جمعہ کو ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی جس میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے خلاف ”جیو نیوز” کے الزامات کی مذمت کی گئی۔ قرارداد تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان نے پیش کی تھی۔
قرارداد پر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ خان مروت، فنکشنل لیگ کے پارلیمانی لیڈر نندکمار اور تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر ثمر علی خان کے بھی دستخط ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ”یہ اسمبلی ”جیونیوز” کے الزامات کی مذمت کرتی ہے، ہمارے قومی سلامتی کے ادارے آئی ایس آئی کو بدنام کیا گیا ہے اور کسی ثبوت کے بغیر آئی ایس آئی کے سربراہ پر جھوٹا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ ”جیونیوز” کا غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔ آئی ایس آئی ہمارا باوقار دفاعی ادارہ ہے جس پر ہمیشہ ہمیں فخر رہا ہے”۔ خرم شیر زمان نے قرارداد کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریر و تقریر کی آزادی ہونی چاہئے لیکن کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ آئی ایس آئی پر اس طرح کے الزامات عائد کرے۔ کوئی بھی پاکستانی اس طرح کے الزامات کو برداشت نہیں کرے گا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی خاموشی توڑی اور کہا کہ آزادی اور صحافت کے نام پر اپنا ایجنڈا پورا کرنے والوں نے آئی ایس آئی کے چیف کے خلاف8 گھنٹے تک جو سلوک کیا اور ان کے نام اور تصویر کے ساتھ خبر چلائی گئی ایسا تو دشمن بھی نہیں کرتا اس وقت ملک چاروں جانب سے خطرات میں گھرا ہے لیکن حامد میر کی آڑ لے کر فوج کو بدنام کیا گیا اس کی انکوائری ہونی چاہئے پیمرا یہ بھی پتہ چلائے میڈیا ہائوسز کو فنڈ کہاں سے مل رہے ہیں یہ فنڈز باہر سے آرہے ہیں تو پھر را اور موساد کی ہی خدمت ہوگی ہماری مضبوط فوج ہوگی تو پاکستان بچے گا۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کراچی میں حامدمیرپر حملے کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ ان کو دھمکیاں طالبان نے دی تھیں تو الزام آئی ایس آئی پر کیوں لگایا گیا ہے۔
جیو ٹی وی کی انتظامیہ ، پیمرا کمیٹی کے اعلیٰ عہدید اروں اورجوڈیشل کمیشن کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا ہے کہ وہ حامدمیر پر حملے کی تحقیقات میں مناسب سمجھیں تو میر ے سوالات پر بھی غورفرمالیں۔ سوال نمبر 1۔۔۔حامد میر نے کراچی آنے کی اطلاع ،وقت اور فلائٹ نمبر سے جیو انتظامیہ کی کن کن شخصیات کو آگاہ کیاتھا ؟۔سوال نمبر2۔۔۔جیو انتظامیہ کے جن افراد کو حامدمیر کی کراچی آمد ، فلائٹ نمبر اوروقت وغیرہ کی معلومات تھیں انہوں نے ایئر پورٹ سے حامد میر کو ریسیو کرنے اور ان کی ٹرانسپورٹیشن کے کیا انتظامات کئے تھے ؟۔
Geo
سوال نمبر 3۔۔۔ کیا جیو انتظامیہ نے انہیں ایئر پورٹ سے ریسیو کرنے کے بعد طے شدہ منزل تک پہنچانے کے لئے بلٹ پروف گاڑی کا انتظام کیا تھا ؟۔ سوال نمبر 4۔۔۔ حامد میر کو بحفاظت طے شدہ مقام پرپہنچانے کیلئے کیا مناسب سکیورٹی کا انتظام کیا گیا تھا؟اوراگر کیا گیا تھاتو کس کمپنی کو ان کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں ؟۔ سوال نمبر 5۔۔۔ جیو انتظامیہ کے جن لوگوں کو حامدمیر کی کراچی آمدکی اطلاع تھی انہوں نے ان کی آمد کی اطلاع کا ذکراپنے ادارے کے کس فرد یا دوست احباب میں کس کس سے کیا تھا؟۔ سوال نمبر۔۔۔6مختلف اخباری اور الیکٹرانک میڈیا سے ملنے والی اطلاعات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حامد میر کوئٹہ جارہے تھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں کوئٹہ جانے سے کس نے روکا اور کراچی آنے پر مجبورکیا ؟۔ سوال نمبر 7۔۔۔حامد میر جس ہسپتال میں زیرعلاج ہیں ، وہاں ڈرائیور انہیں خود لیکر گیا تھا یا حامد میر کے کہنے پر وہاں گیا ؟۔سوال نمبر 8۔۔۔حامد میر کی عیاد ت اور خبر گیری کیلئے ہسپتال میں جیو انتظامیہ کے کون کون سے افراد سب سے پہلے پہنچے ؟۔سوال نمبر 9۔۔۔ مختلف اخبارات اور ٹیلی ویڑن رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے ایک ہٹ لسٹ جاری کی ہے جس میں سب سے پہلے حامد میر کا نام ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز سے معلوم کیا جائے کہ یہ ہٹ لسٹ انہیں کب ، کہاں اورکیسے ملی ؟۔دھمکیاں دینے والوں کے نام اورپتے بمعہ رابطہ نمبر معلوم کیے جائیں تاکہ تحقیقات میں آسانی ہوسکے۔
سوال نمبر10۔۔۔جیو نیوز کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جائے وقوعہ پر حامد میر پر قاتلانہ حملے سے قبل کالعدم تنظیموں کے افراد دیکھے گئے تھے۔ معلوم کرایا جائے کہ وہ کون تھے اور ان کا تعلق کس کالعدم تنظیم سے ہے ؟۔سوال نمبر 11۔۔۔ حامد میر پر حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پنجاب نے قبول کی ہے اور یہ خبربشمول روزنامہ جنگ ملک کے تقریباً تمام پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں شائع اور نشرہوچکی ہے ،تحقیقات کرائی جائے کہ اس اہم نکتہ کو کن مقاصد کے تحت نظرانداز کیاجارہا ہے؟۔
سوال نمبر 12۔۔۔ معروف کالم نگار اور اینکرپرسنز امتیاز عالم اور افتخار احمد کو بھی دھمکیاں دی گئی ہیں، اینکرپرسن رضا رومی کی گاڑی پر حملہ کیا گیا ، ایکسپریس کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا اورایکسپریس کی وین پر حملہ کرکے تین کارکنوں کوشہیدکیاگیاجس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔صحافیوں اور اینکرپرسنز کو دھمکیاں طالبان کی جانب سے دی جاتی رہی ہیں لیکن کراچی میں حامدمیرپرحملے کاالزام آئی ایس آئی پر لگایاگیااور ٹی وی پر تصویر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام کی دکھائی جاتی رہی لہٰذا اس پہلو پر بھی غورکیا جائے کہ ایسا عمل کیوں کیا گیا؟ جماعة الدعوة کی طرف سے افواج پاکستان کے ساتھ ملک گیر اظہار یکجہتی ریلیوں میں مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستا ن کی افواج اورعوام بیدار ہیں ۔پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنے کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
علماء کرام،تاجران،سیاسی و مذہبی جماعتوں،وکلائ،طلباء سب کو چاہئے کہ وہ افواج پاکستان کا ساتھ دیں ۔فوج ہی ملک کا مضبوط ترین دفاع ہے حکومتی اداروں اور افواج میں ہم آہنگی ضروری ہے اظہار رائے کا حق ضرور حاصل ہے مگر مادر پدر آزاد ی کی اجازت ہر گز نہیں دی جائے گی ۔آئی ایس آئی پاکستان کی سرحدوں کی محافظ ہے ۔20 کروڑ عوام کسی بیرونی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، مشکل وقت میں جانیں بھی قربا ن کر دیں گے۔ آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ پاکستان کی نظریاتی،جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کریں گے۔