میجر جنرل رابرٹ کاؤتھم کے وہم و گمان میں بھی شاید نہ ہو گا کہ جس قومی جاسوس ادارے کی وہ بنیاد رکھنے جا رہے ہیں ایک دن اس کا شمار دنیا کے بہترین انٹیلی جنس اداروں میں ہوگا اور عالمی سازشوں کے باوجود یہ خفیہ ادارہ نہ صرف تنہا پاکستان دشمن انٹیلی جنس اداروں کا بھرپور مقابلہ کرے گا بلکہ پوری دنیا کے انٹیلی جنس اداروں کیلئے ایک مثال بھی ہوگا۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ آج جس انٹیلی جنس ادارے سے پاکستان کے دشمن خطرہ محسوس کرتے ہیں اس کا قیام 1948ء میں اُس وقت کے ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹر کرنل شاہد حمید اور ڈیفنس سیکرٹری میجر جنرل (ر) سکندر مرزا کی ہدایت پر آسٹریلوی نڑاد برطانوی فوجی افسر میجر رابرٹ کاؤتھم نے عمل میں لایا جو پاک فوج میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز تھے اور پھر 1950ء سے 1959ء تک آئی ایس آئی کے سربراہ بھی رہے۔
کسی بھی ملک کے قومی انٹیلی جنس ادارے کا کام دشمن کی چالوں، خفیہ سازشوں اور ملک کو درپیش خطرات کو قبل از وقت بے نقاب کرکے ملک کا بالواسطہ طور پر تحفظ کرنا ہوتا ہے اور یہ کردار آئی ایس آئی نے بخوبی نبھایا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے آئی ایس آئی مقبولیت کی عالمی درجہ بندی میں سرفہرست ہے۔ انٹرنیٹ پر جاری دستاویزات کے مطابق 2010ء میں دنیا کی دس بہترین خفیہ ایجنسیوں میں پاکستان کی آئی ایس آئی اپنی کارکردگی کے لحاظ سے پہلے نمبر رہی۔ اسرائیل کی ”موساد” دوسرے، برطانیہ کی ”ایم آئی سکس” تیسرے، امریکی ”سی آئی اے” چوتھے، چین کی ”ایم ایس ایس” پانچویں، جرمنی کی ”بی این ڈی” چھٹے، روس کی ”ایف ایس بی” ساتویں، فرانس کی ”ڈی جی ایس آئی” آٹھویں، بھارتی ”را” نویں اور آسٹریلیاں کی ”اے آئی ایس” دسویں نمبر پر رہیں۔ 2011ء میں بھی آئی ایس آئی نے اپنا اعزاز برقرار رکھا ۔
جبکہ اس کے مدمقابل امریکی سی آئی اے اسرائیل کی موساد کو ساتویں نمبر پر دھکیل کر خود دوسرے نمبر پر آ گئی اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را” ترقی کرکے آٹھویں نمبر پرپہنچ گئی۔ 2012ء میں بھی آئی ایس آئی ٹاپ ٹین میں پہلے نمبر پر رہی۔ امریکا کی سی آئی اے دوسرے، اسرائیل کی موساد ترقی کرکے پانچویں اور بھارتی ”را” آٹھویں نمبر پر رہی۔ 2013ء میں بھی آئی ایس آئی نے سی آئی اے کو آگے بڑھنے کا موقع نہ دیا اور اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھی۔ سی آئی اے دوسرے نمبر پر رہی جبکہ موساد اور ”را” تنزلی کے ساتھ چھٹی اور نویںپوزیشن پر چلی گئیں۔ 2014ء میں بھی آئی ایس آئی ٹاپ ٹین میں پہلے نمبر پر ہے۔ امریکا کی سی آئی اے دوسرے، برطانیہ کی ایم آئی سکس تیسرے، چین کی ایم ایس ایس چوتھے، روس کی ایف ایس بی پانچویں، اسرائیل کی موساد چھٹے، فرانس کی ڈی جی ایس ای ساتویں، کینیڈا کی ایس آئی ایس آٹھویں، بھارت کی را نویں اور آسٹریلیا کی اے ایس آئی ایس دسویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان کے مخالفین بھی مانتے ہیں کہ آئی ایس آئی کی کوالٹی آف کمانڈ اینڈ کنٹرول پوری دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کی ایجنسیوں سے بھی اعلیٰ ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی خفیہ ادارے اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا سراغ نہیں لگا سکے۔ برطانیہ کی سیکرٹ انٹیلی جنس سروس ایم آئی فائیو اور ایم آئی سکس کے سربراہ سرجان ساوازکی اسٹیٹمنٹ کے مطابق آئی ایس آئی دنیا کی ٹاپ فائیو ایجنسیوں میں شامل ہے۔ آئی ایس آئی صرف پاکستان کی ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے ملکوں کے انٹرنل سکیورٹی کو ٹریننگ دینے والی ایجنسی ہے۔ سعودی عرب، سیریا، جارڈن اور مصر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ٹریننگ آئی ایس آئی نے ہی دی، جبکہ بھارت کی آشیرباد سے سری لنکا میں علیحدہ ریاست کے حصول کیلئے قائم تامل ٹائیگرز کے خاتمے میں بھی آئی ایس آئی کا کردار نمایاں رہا۔ اسی وجہ سے سری لنکا آج بھارت کو اپنا سب سے بڑا دشمن اور پاکستان کو دوست سمجھتا ہے۔ آئی ایس آئی کا سب سے پہلا ہدف پاکستان دشمن ممالک، عناصر، ادارے اور شخصیات ہیں۔ یہ ہدف قیام پاکستان کے بعد سے آج تک بدستور قائم ہے، اس میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
اسی لیے بعض اوقات پاکستان دشمن قوتیں اور عناصر آئی ایس آئی کو اپناہدف بنا کر اس کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان مخالف عناصر اور قوتیں جانتی ہیں کہ جب تک یہ ادارہ قائم ہے اُس وقت تک وہ پاکستان کے خلاف کوئی براہ راست کارروائی نہیں کر سکتیں اور ان کی تمام سازشیں جنگ کی نوبت لائے بغیر یہ ادارہ ناکام بنا دے گا۔ پاکستان مخالف قوتوں کیلئے یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ملک کا دفاعی ادارہ اپنے محدود بجٹ میں اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ یہ نہ صرف ترقی پذیر ممالک بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی ہر میدان میں مات دے رہا ہے۔ اس کی کامیابیوں میں سوویت یونین کے معاملے میں اپنے مقاصد کسی بڑی جنگ لڑے بغیر حاصل کرنا قابل ستائش ہے اور دنیا کی دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کیلئے ایک مثال ہے۔ روس کی اس وقت کی بہترین خفیہ ایجنسی ”کے جی بی ” پاکستانی آئی ایس آئی سے مقابلہ کرنے اور وسطی ایشیا میں سوویت یونین کے مفادات کی حفاظت کرنے میں بُری طرح ناکام ہو گئی تھی۔ آئی ایس آئی کی کامیاب تاریخ میں کبھی دوغلے ایجنٹ یا غدار نہیں دیکھے گئے۔ اس نے آغاز سے لے کر ہی اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کی اور جنوبی ایشیاء میں بھارت کی بالادستی کو ختم کیا۔ پاکستان کو امریکا، برطانیہ، اسرائیل اور روس کی مدد سے دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے باوجود بھارت آئی ایس آئی سے ڈرتا ہے اور اب اسرائیل بھی باقاعدہ ڈرنے لگا ہے۔ بھارتی ”را” اور پاکستانی ”آئی ایس آئی” ہمیشہ سے ہی ایک دوسرے کی حریف چلی آ رہی ہیں مگر فتح ہمیشہ آئی ایس آئی کی ہی ہوئی۔ آئی ایس آئی نے بھارتی فوجی حملوں اور خفیہ فوجی مشقوں کی فائلیں اندرا گاندھی کی میز پر پہنچنے سے پہلے ہی غائب کر دی تھیں۔ یوں بھارتیوں کے حملے سے پہلے ہی پاکستانی فوج ہوشیار ہو گئی اور مورچہ بندی کرلی، جس پر بھارتی سورما دُم دبا کر بھاگ گئے۔ یہ آئی ایس آئی ہی ہے جس نے یہ خبر نکالی تھی کہ کہوٹہ پر حملے کیلئے جموں ایئرپورٹ پر اسرائیلی بمبار تیار کھڑے ہیں۔ یہی آئی ایس آئی تھی کہ جس نے دہلی کے ہوائی اڈے پر اسرائیلی طیاروں کو جلد بازی میں بھارتی فضائیہ کا رنگ و روغن کرتے ہوئے تصویریں بنا لی تھیں لیکن رنگ کرنے والے اسرائیلی فضائیہ کا نشان مٹانا بھول گئے تھے۔
Pakistan
یہی آئی ایس آئی تھی کہ جس نے سی آئی اے کی انڈی پینڈنٹ کشمیر تحریک کو سبوتاژ کیا اور یہی آئی ایس آئی ہے کہ جس کی وجہ سے آج بھارت خود کو چاروں طرف سے گھیرے میں محسوس کرتا ہے۔ چین، پاکستان، میانمار، بھوٹان، نیپال اوربنگلہ دیش کی سرحدیں بھارت کیلئے محفوظ نہیں رہیں، یہاں تک کہ وہ سری لنکا سے بھی باقاعدہ خطرہ محسوس کر رہا ہے۔ ماسوائے طالبان دور کے افغانستان کی سرزمین ہمیشہ ہی پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ ایک وقت تھا جب سابق سوویت یونین بھارت کے ساتھ مل کر طورخم بارڈر پر آ کر کھڑا ہو گیا اور افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہوئی۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی بھارت اور روس نے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی لیکن اسی آئی ایس آئی نے پاکستان کو گھیرائو کی کیفیت سے نکالا۔ 1980ء سے سی آئی اے، کے جی بی اور آئی ایس آئی کے درمیان ایک تکون بن گئی تھی۔ آئی ایس آئی اور سی آئی اے آپس میں حلیف ایجنسیاں تھیں اور کے جی بی ان کی حریف تھی۔ آئی ایس آئی کو ایک طرف کے جی بی سے لڑنا تھا تو دوسری طرف سی آئی اے سے بھی بچ کر رہنا تھا۔ یہ ایک طرح کی بالواسطہ جنگ تھی۔ نو سال بعد جب 1989ء میں سوویت افواج افغانستان سے نکل رہی تھیں تو آئی ایس آئی اور سی آئی اے فاتح ایجنسیوں کے طور پر اُبھریں۔ سوویت یونین تحلیل ہو کر پندرہ ممالک کی صورت میں بکھر گیا اور جیسے ہی امریکا کے سپر پاور بننے کا راستہ ہموار ہوا ساتھ ہی اس نے پاکستان کے احسانات بھی بھلا دیئے۔ 2001ء میں اسی امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کر دی اور بارہ سال تک طالبان سے جنگ لڑ کر بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ اب امریکا افغانستان سے واپس جا رہا ہے اور اپنی اس ناکامی کا ذمہ دار اسی آئی ایس آئی کو ٹھہرا رہا ہے جو سوویت یونین جنگ میں سی آئی اے کی حلیف تھی۔ وہ یہ پروپیگنڈا بھی کرتا ہے کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک آئی ایس آئی کے مضبوط بازو ہیں۔ امریکا کے اس خیال میں اگر صداقت بھی ہے تو آئی ایس آئی حق بجانب ہے، کیونکہ اسے ہر کام اپنے ملک کے مفاد کیلئے کرنا ہے۔
امریکا افغانستان سے واپسی پر بھارت کو وہاں اہم کردار سونپنا چاہتا ہے تاکہ طالبان دوبارہ اقتدار پر قبضہ نہ کر سکیں اور بھارت کی آشیرباد سے افغانستان کے راستے بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں گڑبڑ کی صورتحال برقرار رہے جو آئی ایس آئی کو کسی طور بھی قبول نہیں۔ کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایس آئی اتنی ہی طاقتور ہے تو اسے اپنے پہلو میں بیٹھا اُسامہ نظر کیوں نہیں آیا، جی ایچ کیو اور مہران بیس پر حملے ہوئے، آرمی کے ٹریننگ سنٹرز پر خودکش حملے ہوتے رہے لیکن آئی ایس آئی کو خبر تک نہ ہوئی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب سندھ، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں شورش برپا ہے اور پورے ملک میں خودکش دھماکے ہو رہے ہیں ایسے میں دشمن ملکوں کا آئی ایس آئی کو خطرہ سمجھنا ایک انہونی سی بات لگتی ہے لیکن وہ شاید یہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان اس وقت غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا گڑھ بن چکا ہے، ایک وقت میں شاید ہی کسی ملک میں اس قدر خفیہ ایجنسیاں سرگرم ہوں۔ مزید المیہ یہ ہے کہ عدم استحکام کا شکار ہمارا سیاسی نظام ان خفیہ ایجنسیوں کے اہداف کے حصول میں مددگار و معاون ثابت ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں چالیس سے زائد ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اپنے مفادات کیلئے سرگرم ہیں، صرف بلوچستان میں اکیس ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں گڑ بڑ پھیلا رہی ہیں جبکہ اکیلی آئی ایس آئی پس پردہ رہ کر ان تمام ایجنسیوں کے مذموم مقاصد کو ناکام بنا رہی ہے۔ اتنی ایجنسیوں کی موجودگی کے باوجود بھی اگر پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں اور کراچی، بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات میں پاکستانی حکومت کی عملداری قائم ہے تو اس کا کریڈٹ آئی ایس آئی کو ہی جاتا ہے۔ پاکستان مخالف قوتیں چاہتی ہیں کہ فوج شورش زدہ علاقوں میں پھنسی رہے مگر آئی ایس آئی فوج کو پھنسانے کے بجائے اس کا توڑ کرتی ہے اور ضرورت پڑنے پر محدود فوجی آپریشن کی راہ ہموار کرتی ہے۔ افواج پاکستان ضرورت پڑنے پر ہی ملکی دفاع کیلئے جنگ کرتی ہیں مگر اس دفاعی جنگ کی باری بعد میں آتی ہے اور آئی ایس آئی کی دفاعی جنگ ان اداروں سے پہلے شروع ہوتی ہے۔ پاک فوج کے جوانوں کو کبھی کبھی جنگ میں حصہ لینے کی نوبت آتی ہے مگر آئی ایس آئی ہر روز حالتِ جنگ میں ہوتی ہے۔
آئی ایس آئی کے کئی کارنامے ایسے ہیں جو دنیا میں کوئی بڑی سے بڑی فوج بھی نہیں کر سکی۔ آئی ایس آئی جاگ رہی ہوتی ہے تو پوری قوم بے فکر ہو کر سوتی ہے اور دشمن یہ سمجھتا ہے کہ جب تک آئی ایس آئی موجود ہے اس کی پاکستان کے خلاف کوئی بھی بڑی سازش یا براہ راست کارروائی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ آئی ایس آئی پر بلاجواز تنقید کے بجائے امریکا کی تیسری غیر اعلانیہ جنگ کا راستہ روکنے کیلئے اس کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں ،اسی میں ایٹمی پاکستان کا مفاد پنہاں ہے۔