لندن (جیوڈیسک) اسلامک اسٹیٹ نے، جو داعش کے نام سے بھی معروف ہے، بدھ کے روز برطانیہ کی پارلیمنٹ کے قریب حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کیا ہے۔
اس حملے کا خاتمہ اس وقت ہوا جب پولیس نے حملہ آور کو گولی مار دی۔ اس سے پہلے وہ تین افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر چکا تھا۔
حملہ آور کی شناخت برطانیہ میں پیدا ہونے والے 52 سالہ مسعود کے طور پر گئی ہے جسے پولیس ماضی میں کیے گئے کئی مجرمانہ واقعات کے حوالے سے جانتی ہے، جن میں ہتھیار رکھنا شامل ہے۔اسے آخری بار 2003 میں چاقو رکھنے پر سزا سنائی گئی تھی۔
اسلامک اسٹیٹ کی نیوز ایجنسی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہاگیا ہے کہ حملہ آور اسلامک اسٹیٹ کا ایک سپاہی تھا۔ لیکن اسلامک اسٹیٹ نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس گروپ نے حملے کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی تھی ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور نے اسلامک اسٹیٹ کی ان ملکوں کے عام شہریوں اور فوج پر حملے کی اپیل پر عمل کیا جو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف لڑائی میں امریکہ کے اتحادی ہیں۔
برطانوی وزیر تھریسا مے نے پارلیمنٹ میں حملہ آور سے متعلق اپنے بیان میں کہا کہ وہ برطانیہ میں پیدا ہو ا تھا اور ملک کی انٹیلی جینس ایجنسی ایم آئی فائیو نے ایک بار پرتشدد انتہاپسندی کے بارے میں اس سے پوچھ گچھ کی تھی۔ لیکن وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ شخص اس کا حصہ نہیں تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کے اس منصوبے یا حملہ آور کے ارادوں کے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع نہیں تھی۔
برطانوی پارلیمان کے قریب لندن میں بدھ کو ہونے والے حملے میں حملہ آور سمیت پانچ افراد کی ہلاکت کے بعد برطانیہ کی پولیس کی مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی جاری ہے۔
برطانیہ کی پولیس نے جمعرات کو کہا کہ ’ویسٹ منسٹر‘ کے علاقے میں دہشت گرد حملے کے بعد چھ مقامات پر چھاپے مارے گئے اور سات افراد کو حراست میں لیا گیا۔
لندن میں برطانیہ کی پارلیمان کے باہر بدھ کو ویسٹ منسٹر پل پر ایک حملہ آور نے پہلے راہگیروں پر گاڑی چڑھا دی، جس کے بعد اُس نے بھاگتے ہوئے ایک پولیس اہلکار پر چاقو سے کئی وار کر کے اُسے ہلاک کر دیا۔
ہلاک ہونے والے چار افراد ایک پولیس اہلکار اور تین شہری شامل ہیں۔
لگ بھگ 30 زخمیوں میں سے سات کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
اس حملے کی امریکہ سمیت دیگر کئی ممالک کے رہنماؤں نے مذمت کرتے ہوئے، برطانیہ سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کی وزیراعظم ٹریسا مے سے ٹیلی فون پر بات کی اور دہشت گرد حملے کے فوری ردعمل میں برطانوی سکیورٹی فورسز کے کردار کو سراہا۔
اُنھوں نے برطانیہ کو ممکن تعاون کی پیش کش بھی کی۔
فرانس کے صدر فرانسواں اولاند نے بھی برطانیہ سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک برطانیہ کے عوام کے دکھ کو سمجھ سکتا ہے، فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ’ہم سب کا مسئلہ ہے۔‘
جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل نے کہا کہ ’’میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ جرمنی اور اس کے شہری، ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برطانیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ لندن میں حملہ ایسے وقت کیا گیا جب برسلز میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کو ایک سال مکمل ہوا تھا، برسلز میں ہوئے حملوں میں 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور اس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔