تہران (جیوڈیسک) افغانستان اور ایران نے داعش سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے سلامتی کے بڑھتے ہوئے تعاون کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس میں ممکنہ طورپر مشترکہ فوجی آپریشنز بھی شامل ہونگے۔ ایران کے دورہ پر آئے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ کھڑے ہوکر ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ انٹیلی جنس شیئر کی جائے۔ انکے یہ ریمارکس شام، عراق اور افغانستان میں داعش کی کارروائیوں کے بعد سامنے آئے ہیں۔ اشرف غنی کا یہ پہلا دورہ ایران ہے۔
افغان صدر نے کہا کہ داعش ایک سنگین خطرہ اور دہشت گردی کی نئی شکل ہے۔ وسیع تر تعاون کے بغیر اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ایرانی صدر نے کہا کہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میںمزید تعاون کرنا ہوگا۔ انٹیلی جنس شیئرنگ بھی ضروری ہے۔ صدر حسن روحانی نے کہا کہ تہران اور کابل کے مفادات کے تحفظ کے لئے ایران اور افغانستان کے درمیان تعاون کے فروغ کی ضرورت ہے۔
تشدد، انتہا پسندی ایران کی سرحدوں سے ملے علاقوں میں دہشت گردی اور اسی طرح سمگلنگ کی روک تھام کے لئے ایران اور افغانستان کے درمیان مختلف شعبوں خاص طور سے اطلاعات و سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ضرورت پڑنے پر سکیورٹی آپریشن کے لئے بھی تعاون کیا جاسکتا ہے۔ ایران اور افغانستان کو چاہئے کہ علاقے کے دیگر ملکوں کے ساتھ بھی تعاون کریں اسلئے کہ یہ مسائل، کسی ایک ملک سے مربوط نہیں بلکہ یہ پورے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لئے علاقے کے تمام ملکوں کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے۔ ایران میں موجود تمام افغان پناہ گزینوں کے نام کا اندراج ہوگا۔ علاقے کے تمام ملکوں کو چاہئے کہ اس بات کی کوشش کریں کہ یمن کا بحران سیاسی طریقے سے حل کیا جائے تاکہ یمنی عوام، مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کرسکیں۔
افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے کہا کہ اس وقت علاقے کو خطرناک صورتحال سے باہر نکلنے اور امن و استحکام کی طرف قدم آگے بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔ علاقے کو اس وقت ایک بڑے خطرے اور مختلف قسم کی دہشت گردی کا سامنا ہے تمام ملکوں کے تعاون کے بغیر دہشت گرد گروپوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔