کابل (جیوڈیسک) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گزشتہ ہفتے ہزارہ برادری کے مظاہرے میں ہونے والے مہلک خودکش بم حملے کے بعد افغان سکیورٹی فورسز نے پاکستان کی سرحد کے قریب مشرقی علاقے میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کر دی ہے۔
کابل حملے میں کم ازکم 80 افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے اور اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ افغان فوج نے ننگرہار صوبے میں یہ کارروائی شروع کی ہے جہاں گزشتہ سال سے داعش نے اپنے قدم جمانا شروع کیے تھے۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری کے مطابق صدر اشرف غنی نے اس کارروائی کا حکم دیا تھا اور اس میں زمینی کارروائی کے علاوہ شدت پسندوں پر فضائی حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول اسے “آپریشن شفق” کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد علاقے سے داعش کے وفاداروں کو پاک کرنا ہے۔
عسکریت پسندوں کے خلاف افغانستان کی لڑائی میں یہ کارروائی ایک نیا باب قرار دی جارہی ہے کیونکہ اس سے قبل یہ فورسز زیادہ تر دفاعی پوزیشن پر ہی رہی ہیں۔
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جان نکولسن بھی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ افغانستان کی فوج کو ایک عسکریت پسندوں کے خلاف ایک جارحانہ فورس بنایا جائے گا۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کابل حملے سے قبل ہی داعش کے خلاف کارروائیاں کرتی رہی ہے اور گزشتہ دو ماہ کے دوران ننگرہار میں شدت پسندوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
تازہ کارروائیوں میں داعش سے وابستہ کم ازکم 122 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا بتایا گیا ہے لیکن اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔