اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) کابل میں امارت اسلامی خراسان کی طرف سے خونریز حملوں کے بعد پاکستان کے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سلامتی امور کے مبصرین کا خیال ہے کہ داعش کے ابھرنے سے پاکستان کی سکیورٹی کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک تاریخ رہی ہے اور ملک میں کئی ایسے مذہبی طبقات ہیں، جو اس فرقہ پرست تنظیم کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے کچھ رہنماؤں نے چند برس پہلے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس کے بعد پاکستان میں داعش نے کئی حملے مزارات اور اہل تشیع افراد پر کیے تھے۔
دفاعی مبصر جنرل امجد شعیب کا خیال ہے کہ داعش کے ابھرنے سے پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام کے خطرات بڑھیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”کچھ برس پہلے طالبان کے کچھ سرکردہ رہنماؤں نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس شدت پسند تنظیم نے پاکستان میں مزارات اور شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملے کیے تھے۔ اب اس کے ایک بار پھر ابھرنے سے ایسے حملوں کے خطرات بڑھ جائیں گے، جن سے پاکستان میں عدم استحکام کا بھی خطرہ ہے اور اس کے علاوہ اس تنظیم کی وجہ سے ملک کے سماجی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے میں داعش کے لیے کام کرنے والے چین، روس اور پاکستان کے مخالف ہیں، ” اس کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے، جس میں چیچن، داغستان سے تعلق رکھنے والے اور چین کے مغربی علاقے سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند تھے، جو شام میں لڑنے کے لیے گئے تھے اور بعد میں انہیں افغانستان لایا گیا۔‘‘
پاکستان میں عسکریت پسندی پر گہری نظر رکھنے والے صحافی حسن عبداللہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں لشکر جھنگوی کے عناصر نے بھی داعش سے مل کر افغانستان میں اہل تشیع افرد پر حملے کیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” پاکستان میں بھی یہ خطرہ ہے کہ یہ ان کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ کارروائی کریں، جس سے پاکستان میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے افراد ہیں، جو کسی بھی مذہبی تنظیم سے وابستہ نہیں ہیں لیکن وہ داعش کے نظریات سے متاثر ہو سکتے ہیں اور ان کے لیے کام کر سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اورکزئی ایجنسی کے علاوہ کچھ علاقوں میں داعش کی موجودگی ہے گو کہ وہ افرادی طور پر بہت زیادہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں، ”شام میں رپورٹنگ کے دوران مجھے ایک دہشت گرد تنظیم نے بتایا کہ یہاں تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب پاکستانی جنگجوآئے تھے۔ انہوں نے پہلے ایک انتہاپسند تنظیم جوائن کی اور پھر داعش میں شمولیت اختیار کی۔ تو یہ کہنا کہ ان کی موجودگی پاکستان میں نہیں ہیں یقیناﹰ غلط ہو گا۔ ان کی پاکستان میں موجودگی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ موجودگی افرادی لحاظ سے بہت بڑی نہیں ہے۔‘‘
حسن عبداللہ کے خیال میں داعش کے نظریات انتہائی خطرناک فلسفے پر مبنی ہے، ”وہ اپنے علاوہ سب کو مرتد سمجھتے ہیں اور ان مرتدین میں القاعدہ، طالبان اور بہت سارے مسلمان شامل ہیں۔ لہٰذا یہ فلسفہ انتہائی تکفیری ہے اور یہ بہت تقسیم پیدا کر سکتا ہے۔ داعش کے لوگوں میں منتخب افراد کو ٹارگٹ کرنے اور چھوٹے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے علاوہ ان کے سلیپر سیل بھی ہیں، جو پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔‘‘
نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین کا خیال ہے کہ داعش کے ابھرنے کی وجہ سے پاکستان کو سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یہ ایسے چیلنجز نہیں ہوں گی، جن پر پاکستان قابو نہ پا سکے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”داعش کے نظریاتی ساتھی یہاں پر بھی ہیں اور اس سے پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اور ملک میں مزارات اور مذہبی اقلیتوں پر حملے ہو سکتے ہیں لیکن کیونکہ پاکستانی فوج پہلے بھی اس صورت حال کا سامنا کر چکی ہے اور وہ برسوں سے لڑ رہی ہے، وہ ان مسائل کا سامنا کر لے گی۔‘‘