عراق (جیوڈیسک) داعش موقع پرستوں ، نسلی اور مذہبی حاکمیت کو جہاد کا نام دینے کی وجہ سے وجود میں آئی جس کی شکست کا زمانہ قریب ہے۔
گزشتہ عرصے کے دوران داعش متعدد شامی اور عراقی شہروں پر سے اپنی حاکمیت کا جھنڈا اتار چکی ہے ۔دابق میں پس قدمی اور موصل آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی داعش کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔نتیجتاً داعش کو شکست دینا بظاہر آسان نظر آتا ہے لیکن اگر اس سلسلے میں کچھ ضروری اقدامات اٹھائے جائیں تو ممکن ہے کہ اس کے پھیلاو سے وابستہ عناصر کا بھی خاتمہ عمل میں آسکے۔
عراق میں موجود جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کا بہانہ بنا کر امریکی قبضے کے بعد داعش رونما ہوئی ۔مالکی کی مذہبی منافرت پر مبنی پالیسیوں سے اس تنظیم کے ہاتھ مضبوط ہوئے جبکہ عالمی برادری کے شام میں اسد اقتدار کی حمایت کرنے نے بھی اس تنظیم کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع دیا ۔ اس خبطی تنظیم کا شیوہ در حقیقت تباہی پھیلانا اور معصوم انسانوں کا خون بہانہ ہے جس نے انسانی اقدار اور قانونی روایات کی دھجیاں بکھیر دیں۔ عراق اور شام پر جنگوں کو تھوپ کر عالمی سامراجوں نے ایک ایسا خاکہ تیار کیا کہ جیسے داعش کو ختم کرنا مشکل نظر آنے لگا۔
داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں ہماری خواہش کے مطابق ختم نہ ہونگی اس کےلیے ہمیں ثابت قدمی ،باہمی تعاون اور عزم کی ضرورت ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ حالیہ دور میں جرابلس ،عزاز،منبج اور دابق میں داعش کے خلاف فتوحات کا سلسلہ دیکھ کر لگتا ہے داعش کی تسخیر جلد ممکن ہو سکے گی ۔ عراقی فوج، پشمرگوں اور عالمی اتحادی قوتوں میں ترکی کی شمولیت سے امید ہے کہ داعش کو خاک چھاننا پڑے گی مگر اتنا ضرور ہے کہ اگر موصل میں ذرا سے بھی غفلت ہوئی تو وہ داعش کو دوبارہ سر اٹھانے کی مہلت دے گی چونکہ اس کے پس پردہ کار فرما وہ شر پسند عناصر تاحال موجود ہیں۔ اسد انتظامیہ کی قتل و غارت گری ،مذہبی منافرت پر مبنی پالیسیوں اور دیگر عوامل داعش کی غنڈہ گردی کو ہوا دے رہےہین جنہیں روکنا ضروری ہے۔
تشدد آمیز انتہا پسندی ایک عالمگیری ناسور بن چکی ہےجس کے کئی اسباب ہین جن میں مذہبی،سیکولر یا قوم پرستی کے حامی عناصر متحرک ہو سکتے ہیں۔ جنگیں، فسادات،خانہ جنگی۔قبائلی دشمنی اور ناکام ریاستیں ان کا شکار ہو سکتے ہیں جنہیں روکنے کےلیے ہمیں مشترکہ حکمت عملی اور عالمی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔
داعش،پی کےکے کی طرح میانمار میں مسلم نسل کشی میں پیش پیش بدھ قوم پرست ایک نفرت آمیز قوت بن کر ابھری ہے جن سے پنجہ آزمائی کےلیے ذہنی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے وگر اس کا نتیجہ بر عکس نکل سکتا ہے۔ داعش کا جہاں تک سوال ہے تو اس کےلیے مسلم علما٫ اور مذہبی قائدین کا مشترکہ فتوی اس کی سکت مخالفت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔اس سلسلے میں ایک بہترین مثال سن 2014 میں سامنے آئی جب علمائے عالم نے ابو بکر البغدادی کو ایک خط روانہ کرتےہوئے اس کی بربریت اور ظالمانہ حرکات کی کڑی مذمت کی تھی ۔
تاہم، داعش کی مذمت یہاں کافی نہیں بلکہ اس کےلیے دنیا کو یہ بتانا ضروری ہے کہ داعش کی یہ مذموم حرکات شعائر اسلام کے منافی ہیں اور وہ ایک جنونی اور خارج الاسلام تنظیم ہے مگر انتہا پسندوں کا مختصر سا ٹولہ اب بھی اس تنظیم کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہے دہشت گردی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں یہ سب کو معلوم ہے ۔
یہاں یہ ضروری ہے کہ کسی وحشی سے اُس جیسا بنے بغیر کس طرح سے لڑا جائے۔ افسوس کہ عالمی طاقتوں کی بعض ناکارہ پالیسیاں داعش کو سر اٹھانے میں مدد دے چکی ہیں جس سے وہ ایک خونی درندے کا روپ دھار چکی ہے۔ 24 اگست سے جاری فرات ڈھال آپریشن میں داعش کی سر کوبی کےلیے شام کے مخالف گروہوں کی شمولیت اور دیگر تمام سیاسی ،فوجی دیگر اہم ذرائع ترکی کی حمایت کر چکے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ عنقریب داعش کے بے لگام اور سر کش گھوڑے کو نکیل ڈال دی جائے گی ۔