داعش اور ایرانی رجیم سے نمٹنے کے لیے امریکا، سعودی عرب شراکت داری ناگزیر ہے: مائیک پومپیو

 Mike Pompio

Mike Pompio

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ سعودی عرب مشرقِ اوسط میں استحکام کے لیے ایک اہم قوت ہے۔اس نے امریکا کی قیادت میں داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ میں کروڑوں ڈالر صرف کیے ہیں۔

انھوں نے یہ باتیں امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں منگل کو شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں لکھی ہیں۔وہ لکھتے ہیں: ’’ سعودی عرب عراق کی لڑکھڑاتی جمہوریت کو بچانے اور بغداد کو تہران کے بجائے مغرب کے مفادات سے وابستہ رکھنے کے لیے کام کررہا ہے۔وہ شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں مہاجرین کے سیلاب کے انتظام کے لیے بھی خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔وہ مصر کے ساتھ قریبی تعاون کررہا ہے اور اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کررہا ہے‘‘۔

انھوں نے تیل کی قیمتوں اور مارکیٹ میں استحکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی عرب کی تیل کی پیداوار اور معاشی استحکام علاقائی استحکام اور عالمی سطح پر توانائی کی سکیورٹی کی کلید ہیں۔

مائیک پومپیو نے مضمون میں جمال خاشقجی کے قتل کو اپنے خفیہ مقاصد اور محرکات کے لیے استعمال کرنے والوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ قتل کے اس واقعے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی عرب کے بارے میں پالیسی پر نکتہ چینی کے لیے استعمال کررہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے صدر براک اوباما کی ایران کے ساتھ مصالحت کی حمایت کی تھی۔

انھوں نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ’’جب براک اوباما ایران کے ملّاؤں کو دنیا بھر میں دہشت گردی کے لیے رقوم دینے کی منظوری دے رہے تھے تو اس وقت یہ انسانی حقوق کے علمبردار کہاں تھے؟‘‘

سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس موقف کی تصدیق کی ہے کہ اس واقعے میں ملوث اکیس مشتبہ افراد امریکا میں داخل نہیں ہوسکتے اور ان کے ویزے منسوخ کردیے گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’’ خاشقجی قتل کیس کے ضمن میں مزید حقائق سامنے آتے ہیں تو ٹرمپ انتظامیہ مزید تعزیری اقدامات پر بھی غور کرے گی‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور سعودی عرب ایران سے درپیش خطرے کو سمجھتے ہیں۔ انھوں نے لکھا :’’ ہنری کسنجر کی اصطلاح میں آج کے دور میں ایران ایک قوم نہیں بلکہ ایک کاز ہے۔اس کے مقاصد اسلامی انقلاب کو تہران سے دمشق تک پھیلانا ، اسرائیل کو تباہ کرنا اور جو کوئی بھی اس کو تسلیم نہ کرے، ان کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔اس کا آغاز خود ایرانی سے عوام سے کیا گیا تھا۔اگر ایران کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو وہ مشرقِ اوسط میں مزید ہلاکتیں اور تباہی پھیلائے گا۔وہ خطے میں جوہری ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع کردے گا،تجارتی گذرگاہوں کے لیے خطرہ ہوگا اور دنیا بھر میں دہشت گردی کو ہوا دے گا‘‘۔

انھوں نے یمن میں جاری بحران اور وہاں ایران کی مداخلت کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’ محمد بن سلمان کا سعودی ولی عہد کی حیثیت سے پہلا اقدام یمن میں ایران کے تخریبی اثرورسوخ کا خاتمہ تھا جہاں ایران کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ باغیوں نے 2015ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا‘‘۔

امریکی وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ ’’ایران جزیرہ نما عرب میں بھی حزب اللہ ایسی تنظیم کو کھڑا کر رہا ہے ۔سیاسی قوت کے ساتھ ایسا جنگجو گروپ سعودی عرب کے آباد مراکز کو یرغمال بنا سکتا ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے میزائل اسرائیل کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’ حوثیوں نے سعودی علاقے پر قبضہ کررکھا ہے، وہ ایران کی مدد سے یمن کی اہم بندرگاہ پر قابض ہیں۔انھوں نے اپنی بیلسٹک میزائلوں کو صلاحیت کو بہتر بنایا ہے جس کے ذریعے وہ الریاض کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نشانہ بناسکتے ہیں جہاں سے ہزاروں امریکی بھی فضائی سفر کرتے ہیں جبکہ ایران نے یمن میں جاری تنازع کے سیاسی حل کے لیے ا بھی تک کسی حقیقی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا ہے۔اس کو یمنیوں کے مصائب کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جبکہ سعودی عرب نے یمنی عوام کی امداد کے لیے کروڑوں ڈالرز دیے ہیں‘‘۔