قاہرہ (جیوڈیسک) سال 2018ء کے دوران اس سے گذشتہ برس یعنی 2017ء کی نسبت “داعش” کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں کمی آئی۔ اس کی وجہ عالمی سطح پر ‘داعش’ کا محاصرہ اور شدت پسند گروپ کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک سوال اب بھی موجود ہے۔ کیا جس طرح داعش کا سیکیورٹی محاصرہ سخت کردیا گیا کیا اس طرح اس کے مالیاتی سوتے اور دولت سمیٹنے کےسرچشمے کنٹرول کیے جا سکیں گے؟۔ یہ اسوال اس لیے بھی اہم کہ یہ تنظیم اب بھی مالیاتی طورپر مضبوط گروہ ہے۔
مصر کے دارالافتاء کی جانب سے بدھ کے روز جاری کردہ رپورٹ میں داعش کی آمدن کے ذرائع اور اخراجات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2017ء کے دوران داعش نے 11 ہزار حملے کیے جن میں دنیا بھر میں 26 ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش کی آمدن کی ایک بڑی وجہ دہشت گرد گروہ کی طرف سے اقتصادی فتوے ہیں۔ داعش کی جانب سے جاری کردہ کل فتووں میں 10 فی صد مالیاتی اور اقتصادی نوعیت کے ہیں جب کہ القاعدہ کی طرف سے ایسے فتاویٰ کا کل تناسب 5 فی صد ہے۔ ان فتووں میں املاک پرقبضے کے جوازکے ساتھ صدقات، عطیات،الزھد، ایثار جیسی اصطلاحات کے ساتھ ساتھ مال بٹورنے کے لیے جنگجوئوںکو لوٹ مار اور چوری اور ڈاکہ زنی تک کی اجازت حاصل ہے۔
داعش کی طرف سے جاری کردہ فتووں میں لوٹ مار کی کارروائیوں، دھوکہ دہی، تجارت، گھٹیا دھندوں اور پیسے کے حصول کے لیے ہرجائز اور ناجائزحربہ استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کے بدلے تاوان اوربھتہ کی وصولی کی اجازت دی جاتی ہے۔ داعشی جنگجو ‘کمائی’ کے ان تمام حربوب کو ‘مال غنیمت’ قرار دیتے ہیں۔
حال ہی میں داعش کی طرف سے اپنے جنگجوئوں کے لیے ایک فتویٰ جاری کیا گیاجس میں جنگجوئوں کو ڈیجیٹل کرنسیوں جن میں ‘بٹکوین’ جیسی ایک فرضی کرنسی میں لین دین کی بھی اجازت دی گئی۔ داعش کے ایک مفتی تقی الدین المنذر نے “بٹکوین اور صدقہ جہاد” کے عنوان سے ایک فتویٰ یا جس میں انہوںنے کہا کہ حکومتی مالیاتی نظام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ورچوئل کرنسیوں کا سہارا لیتی ہیں۔ بٹکوین کے ساتھ لین دین میں کوئی حرج نہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ داعش دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے رقوم کیسے حاصل کرتی اور رقوم کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کیسے کرتی ہے جب کہ اسے دنیا کا کوئی بنک لین دین کی اجازت نہیں دیتا۔
مصری دارالافتاء کا کہنا ہے کہ خفیہ رقوم داعش کی کارروائیوں کا سب سے اہم عنصر ہے۔ داعشی جگجو دھوکہ دہی، لوٹ مار اور بلیک میلنگ کے ذریعے نہ صرف رقوم جمع کرتے ہیں بلکہ انہیں ایک سے دوسرے مقام پرمنتقل کرتے ہیں۔ سنہ 2017ء کے دوران داعش نے دہشت گردی کی کئی کارروائیوں کے لیے ‘بٹکوین’ اور دیگر ورچوئل کرنسیوں کو استعمال کیا۔ انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے امور کے ماہر منیر ادیب نے “العربیہ ڈاٹ نیٹ” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “داعش” کا رقوم کے حصول کے کئی دیگر ذرائع بھی ہیں۔ ان میں زمینوں پر قبضے،شہر یا کسی علاقے پرقبضے کے بعد وہاں پرموجود وسائل کوجنگجوئوں کے لیے مباح کردیا جاتا ہے۔ وہ جس طرح چاہتے ہیں اسے لوٹتے ہیں۔ اگرآبادی غیرمسلموں پرمشتمل ہو تو ان کی املاک مال غنیمت کے طورپر غصب کرلی جاتی ہیں۔
داعش مال بٹورنے کے لیے انسانی خریدو فروخت جیسے سنگین جرم کی بھی مرتکب پائی گئی ہے۔ داعشی جنگجو بچوں اور خواتین کی خریدو فروخت کرتےہیں۔