لندن (اصل میڈیا ڈیسک) دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش نے اسلحہ کہاں سے حاصل کیا؟ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ اس سوال کا جواب فراہم کرتی ہے۔ رپورٹ سے بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورک کی سالوں پر محیط اسلحے کے حصول کا پردہ فاش ہوا ہے۔
ٹیلی فون کی ایک چھوٹی سی دکان چھ ٹن ایلومینیم پیسٹ خریدتی ہے، ایک کھاد فروش جو 78 ٹن ‘فوڈ ایڈیٹیوز‘ میں دلچسپی ہے۔ برطانیہ میں مقیم ایک کمپنی جو امریکا سے تحریک کو کنٹرول کرنے کا حکم دے رہی ہے جبکہ ترکی لگژری کار کرائے پر دینے والی ایک کمپنی کے ذریعہ اس آرڈر کا انوائس طے کیا گیا تھا۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کی آڑ میں ”اسلامک اسٹیٹ‘‘ آئی ایس برسوں سے ایک خاص مقدار میں اپنے اسلحے کو منظم کرتی رہی ہے۔
اس قسم کی سرگرمیوں پر آئی ایس یا داعش کے وجود میں آنے کے ابتدائی دور میں توجہ بہت کم مرکوز رہی اور بہت کم مبصرین کو اس جہادی تنظیم کے اہداف اور اس کے حصول کے لیے اپنائے جانے والے طریقہ کار کا اندازہ تھا۔ آخر کار دہشت گرد تنظیم آئی ایس تکنیکی ماہرین اور سپلائرز کا ایک ایسا جال بچھانے میں کامیاب ہو گئی جن کی مدد سے وہ وسیع پیمانے پر اسلحہ حاصل کرنے کے قابل بن گئی۔
لندن کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ” کونفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ‘‘ کی تازہ ترین مطالعاتی رپورٹ نے یہ تمام انکشافات ہوئے ہیں۔ اپنے ان وافر اسلحہ جات کے ساتھ داعش نے عراق اور شام میں اپنے کنٹرول والے علاقوں میں نہ صرف خود کو مضبوط کیا بلکہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں مسلسل توسیع کی۔ خاص طور سے 2014 ء سے اسلامک اسٹیٹ نے تیزی سے اپنا اثر ورسوخ پھیلانا شروع کیا یہاں تک کہ یہ اب ایک بین الاقوامی اتحاد کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔
لندن کے تحقیقی ادارے کی ریسرچ پر مبنی اس رپورٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ ترکی اور شام کا سرحدی علاقہ دراصل اسلامک اسٹیٹ کو اسلحے کی فراہمی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اس علاقے میں زیادہ تر غلط یا جعلی شناخت کے ساتھ آئی ایس کے ممبروں نے اس خطے کی کمپنیوں سے رابطہ کیا اور اسلحہ جات یا دھماکہ خیز مواد آرڈر کیے۔ مذکورہ تحقیقی مطالعے کے مصنفین نے اپنی رپورٹ میں بار بار اس امر پر زور دیا ہے کہ اس علاقے کی کمپنیوں کے مالکان یہ جانے بغیر کے وہ کس طرح کے صارفین کے ساتھ بزنس کر رہے ہیں، آرڈرز لیتے رہے اور بزنس کرتے رہے۔ لندن کے کنگز کالج میں سکیورٹی امور کے مطالعات کے ماہر پروفیسر پیٹر نوئیمن کہتے ہیں،”آئی ایس نے بڑے سوچ سمجھ کر ایک ایسے خطے کا انتخاب کیا جہاں سے وہ آسانی سے پیچھے کی جانب حرکت پذیر ہو سکتی تھی اور جہاں وہ اپنے متعلقہ تجارتی سرگرمیاں منظم رکھ سکتی تھی۔‘‘
یہ حکمت عملی تاریخ میں دیگر انقلابیوں کے نصاب کی کتاب جیسی اہمیت رکھتی ہے۔ جیسے ماؤ زے تنگ یا چی گوئیرا کی اسٹریٹیجی تھی۔
آئی ایس کئی برسوں سے اپنے نیٹ ورک کو جس انداز سے فعال رکھنے میں کامیاب رہی ہے اس کے پیچھے اصل کام ان ‘مڈل مین‘ کا ہے جنہوں نے انتہائی نفاست و باریکی سے اپنا کام انجام دیا ہے۔ انہوں نے اپنا کام بخوبی انجام دیا مگر اپنی شناخت کو مستقل چھپائے رکھا۔ داعش کے اسلحے کی تمام تر خریداری میں جعلی ای میل اکاؤنٹس تیسری پارٹیوں کی ویب سائٹس اور آڈیو سافٹ ویئر کی مدد سے کی گئی۔ رقوم کی ادائیگی زیادہ تر بین الاقوامی سطح پر فعال ‘سروس فراہم کنندگان‘ کے ذریعہ نقد پیسوں کی شکل میں کی گئی۔ لندن کے ریسرچ انسٹیٹوٹ کے محققین کو اس تمام دھندے میں ملوث افراد کے قدموں کے نشانات ایشیا تک میں ملے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے کنگز کالج لندن کے پروفیسر نوئمن نے کہا،” پہلے یہ سمجا جا رہا تھا کہ زیادہ تر ہتھیار خلیجی خطے سے آئے ہیں لیکن ان ہتھیاروں کے کچھ حصے در حقیقت اندرون ملک تعمیر کیے گئے تھے۔‘‘ ان ہتھیاروں کا ایک اور معروف ذریعہ عراقی اور شامی فوج کی طرف سے جمع کر دہ وہ ہتھیار بنے، جو وہ بعد میں چھوڑ گئے۔ ان ہتھیاروں کو آئی ایس نے اپنے قبضے میں لے لیا۔
آج دہشت گرد نیٹ ورک آئی ایس بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آ رہی ہے تاہم داعش نے ہتھیاروں کے حصول کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ عراقی حکومت کے ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ اب اس تنظیم کے پاس صرف ہلکے پھلکے ہتھیار باقی رہ گئے ہیں، کوئی بھاری یا درمیانے درجے کے ہتھیار نہیں ہیں۔ دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے ایک محقق جاثیم محمد جو اپنی ویب سائٹ،” europarabtc.com چلا رہے ہیں نے ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا،” اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ آئی ایس نے پوری دنیا میں اپنا نیٹ ورک اور اپنے مالی وسائل کھو دیے ہیں۔‘‘