واشنگٹن (جیوڈیسک) حالیہ مہینوں کے دوران تیسرا اہم دہشت گرد حملہ ہوا جس کا ذمہ دار داعش کا شدت پسند گروپ بتایا جاتا ہے جو یمن میں ایک عفریت کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس سے یہ جنگ زدہ ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے، جو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران، حمایت کے حصول کے لیے گروپ نے مراکز قائم کیے ہیں، اور خاص طور پر ملک کے جنوب اور جنوب مشرقی حصوں میں اپنی موجودگی ظاہر کی ہے۔ پیر کے روز عدن میں ہونے والا حملہ جس میں کم از کم 45 افراد ہلاک ہوئے اس بات کی تازہ ترین مثال ہے کہ گروپ یمن میں اپنا اثر بڑھا رہا ہے۔
داعش نے جون 2014ء میں شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کی خلافت کا اعلان کیا، جب دنیا بھر سے تعلق رکھنے واکے متعدد جہادی گروپوں نے اس گروپ کے ساتھ اپنی وفاداری کا عہد کیا۔ یمن میں القاعدہ کے ساتھ منسلک کئی گروہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ شام اور عراق میں اس نئے تشکیل دیے گئے دہشت گرد قیادت کی کمان میں کام کریں گے۔
تجزیہ کاروں نے بتایا ہے کہ پیچیدہ خانہ جنگی کے دوران، داعش علاقے پر غلبہ اور ایک ایسے ملک میں اثر و رسوخ کر رہی ہے جہاں کئی تہ پر مشتمل تنازع سامنے ہے۔
میسا شجاع الدین قاہرہ میں مقیم یمنی امور کی تجزیہ کار ہیں۔ بقول اُن کے، ’’وہ ملک میں سکیورٹی اور سیاسی خلا سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
بقول اُن کے، یمن میں داعش اور القاعدہ خاص طور پر ایک ہی گروپ ہے، لیکن لڑائی اور سیاسی میدانوں میں اُن کےحربے مختلف نوعیت کے ہیں۔
بقول اُن کے، یمن میں داعش اور القاعدہ خاص طور پر وہی گروپ ہے، لیکن لڑائی اور سیاسی میدان میں اُن کےحربے مختلف نوعیت کے ہیں۔
میسا نے کہا کہ ’’محض ایک ہی فرق ہے وہ یہ کہ القاعدہ کا خاص مقصد مغرب کو نشانہ بنانا ہے؛ جب کہ داعش یمن میں ریاست کرنے کی خواہش مند ہے تاکہ مغرب پر حملہ کیا جاسکے‘‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش اس قابل ہے کہ وہ ایک عرب ملک کے دائرے میں رہ کر القاعدہ سے دو ہاتھ آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جس داعش کی قیادت کو القاعدہ اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔