بالآخر اسلامی افغانستان

Pak Afghan Border

Pak Afghan Border

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
افغانی بات کے سچے، جذبے کے پکے اور دشمن سے نپٹتے رہنا شکست قبول نہ کرنا ان کی فطرت میں شامل ہے۔ پاک افغان بارڈر پر ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ درجنوں سالوں سے چلتا آ رہا ہے۔ یہ اعلیٰ دینی اقدار کے حامل ہیں اور باہر سے آکر آج تک کوئی ان کی سرزمین پر قابض نہ ہو سکا ہے۔ اور اغلب امر یہی ہے کہ مستقبل میں بھی یہاں قابض ہونا اور یہ کہ افغانی شکست قبول کر لیں گے۔ انتہائی مشکل ترین معاملہ ہے۔

امریکہ نے 15 سال تک خاک چھانی روسی ریچھ وہاں گھس آیا تو اسے واپس بھی نہ صرف جاتے بنی بلکہ اپنے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کروا بیٹھا۔اور دنیا بھر میں ذلیل و خوار بھی علیحدہ ہوا ۔اوراس کے نام نہاد سوشلزم کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا۔گو اس میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم تھا۔کہ ہمیں روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے دینا کسی صورت قبول نہ تھا۔پوری دنیا سے غیور مسلمان وہاں پہنچے اور روس کو شکست فاش ہوئی۔امریکہ کے اپنے مخصوص مفادات تھے اسلئے اس نے بھی یہاں جنگجوئوں کو کمک پہنچائی۔فتح ہوتے ہی کئی سال تک مجاہدین کے راہنما آپس میں گتھم گتھا رہے کہ طالبان کی صورت میں دینی مدارس کے نوجوان اٹھے اورقابض ہو گئے۔

یہ صورتحال امریکہ کو قابل قبول نہ تھی۔اسے9/11کا بہانہ ملا اور وہ ہمارے کمانڈو جنرل مشرف کی اشیر باد سے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔لاکھوں مسلمانوں کو ذبح کرڈالا۔زہریلی گیسیں تک پھینکیں۔ڈرون حملے کیے گئے بالآخر وہ اور اس کے اتحادی وہاںپر اپنے ہی تیار کردہ قلعوں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ااور اپنی کٹھ پتلی حکومتیں بہر حال کابل کی حد تک انتظامات سنبھالے رہیںامریکی فوجی سخت خوف زدہ ہو کر خود کشیاں کرنے لگے۔اور امریکہ میں ان گنت لاشیں پہنچنا شروع ہو گئیںتو عوامی دبائو کے تحت امریکی حکمران یہاں سے باعزت نکلنے کی تیاریاں شروع کرچکے ہیں۔اور اس سلسلے میں پاکستان کی امداد کے طالب ہیں۔اور دوسری طرف چین کو بڑی طاقت بننے سے روکنے کے لیے ہندوستان کو یہا ں کا تھانیدار بھی بنانا چاہتے ہیں۔جو پاکستان کو قطعی قبول نہ ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تو ہم اتحادی تھے اور اربوں ڈالر کا نقصان بھی برداشت کیا اور ہزاروں شہادتیں بھی ہمارے حصہ میں آئیں۔اب اسرائیلی امریکی بھارتی پاکستان دشمن تکون اوراس کے ٹائوٹ اتحادی لاکھ ترلے منت کریں اور افغانی عوام کو ورغلائیں وہ اسلامی جذ بوں سے سرشار ہیں۔وہ پاکستان کے ساتھ ایسا اختلاف تو کر سکتے ہیں جیسا گھر میں بہن بھائیوں میں بھی معمولی اٹ کھڑکا ہو جاتا ہے۔

Pakistan

Pakistan

یہ تو روٹین کی باتیں ہیں مگر یہ کہ انتہائی مخلص اور اپنے محسن پاکستان کو بھول کر باقاعدہ زور آزمائی کریں گے تو دشمنان دین سمجھ لیں کہ ایں خیال است۔محال است و جنون ہم نے پندرہ لاکھ افغانیوں کی اپنے ہاں مہمان داری کی ہے کرزئی جیسے امریکہ کے خیر خواہ تو حصاروں میںہی مقید ہیں اورحکومت نام کی وہاں کوئی چیز نہ ہے حتیٰ کہ امریکی اوراس کے اتحادی فوجی بھی بلند و بالا عمارتوں میں رہتے ہوئے ہفتوں سورج کی شعاعیں دیکھنے کو بھی ترستے ہیں۔

ایٹمی پاکستان کا رول پورے عالم اسلام میں صرف شفیق باپ کاسا ہے۔ہم کسی ملک کے اندر ونی جھگڑوں میں دخل اندازی کر ہی نہیں سکتے کہ ہمیں تو پورے عالم اسلام کو لیڈ کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ہے۔”افغان باقی کوہسار باقی “امریکی روسی سوشل سامراج اور بھارت مل کربھی اففانیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو ایٹمی پاکستان کا توایک گندگی بھرا بال بھی نہیں اکھاڑ سکتے۔کہ ہمارا ایٹمی پروگرام دنیا بھر میں اولین حیثیت کا حامل ہے۔ہم صرف 4.5منٹوں میں کسی بڑے سے بڑے ملک کے اہم شہروں کو ملیا میٹ کرسکنے کی خدا کے فضل سے اہلیت رکھتے ہیں۔

Afghans

Afghans

اس لیے کسی کو بھول میں نہیں رہنا چاہیے۔ہم خودار اور دینی اقدا ر کے حامل اور آقائے نامدار محمدۖ کے پروانوں کی طرح ہیں۔مسلمانوں کی قربانیوں کی پوری دنیا میں ایک تاریخ ہے خدائے عز وجل جو منصف اعلیٰ بھی ہیںبالآخر تو پوری دنیا میں اللہ اکبر کی تحریک چلے گی اسی کی کبریائی ہو گی اور اسی کی حکومت اور اسی کے نظام کا سکہ چلے گا انشاء اللہ۔امریکی یہودی بھارتی لاکھ زور لگائیں افغانیوں کا مقدر صرف اور صرف اسلامی افغانستان ہی ہے کوئی خواہ کتنا بڑا تمندار اور کیسے ہی اسلحہ سے کیوں نہ لیس ہو جائے وہ ان پر قابو پا ہی نہیں سکتا۔کہ جس ملک کی زمین اس کے باشندوں کے خون کے دریائوں سے سیراب ہورہی ہو وہاں کوئی کافر بچہ قبضہ کر ہی نہیں سکتا۔یہ مشرقی پاکستان بھی نہیں ہے۔ کہ جہاں “ٹائیگر”نیازی نے98ہزار مسلح مسلم سپاہ کے ساتھ ہتھیار سکھ جنرل کے قدموں میں ڈال دیے اور جس کی قیادت نے پولینڈ کی تاریخی قرارداد تک سلامتی کونسل میں پھاڑ ڈالی جس میں فوری جنگ بندی کرکے بھارت اور پاکستان کو اپنی اپنی سرحدوں پرواپس چلے جاناتھا۔اگر ایسا ہو جاتا تو پھر ہمارا نامزد کردہ نمائندہ بھٹوکیسے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹراور سربراہ مملکت بنتا۔یہ قصہ پارینہ ضرور ہے مگر یہ ہمارا وہ رستا ہواخون ہے جو آج تک ہمارے زخموں سے ایسے ہی بہہ رہاہے جیسے ہم آج ہی قتل کیے گئے ہوں۔

کہاں ہم سات سو سال تک پورے بھارت کے حکمران رہے اور کہاں ہم اس کے 1/10 حصہ پر قابض رہ گئے اور وہاں بھی بیرونی اسلام دشمن قوتیں اپنے ٹائوٹوں کے ذریعے بقیہ پاکستان کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔خدا خیر کرے کہ ایسا دن کبھی نہ آئے مگر ہمیں بھی خود اور ہماری حکمران قیادت و اپوزیشنی لیڈروںکو ہوش کے ناخن لینے چاہیںاورپوری نوجوان نسل میں سے کم ازکم چار کروڑ نوجوانوں کو فوری لازمی فوجی تربیت دے کرنوجوان فورس “اللہ اکبر کے سپاہی” تیار کرلینے چاہیںجن کی تربیت تین ماہ میں مکمل ہو اور ہم بھی کفار کے برابر کھڑے ہو کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے اہل ہو سکیں۔ اگر مزید ممکن ہو تو پور ے عالم اسلام کے سربراہوں کی کانفرنس بلوا کر انھیں بھی قائل کریں کہ وہ نوجوان نسل کی تربیت کریں مشترکہ اسلامی فوج” اللہ اکبر فورس”موجود ہو گی تو اغیار بھی سنبھل کر بات کیا کریں گے اور سعودیہ جیسی مقدس سرزمین کی طرف بھی زہر آلود آنکھوں سے نہ دیکھیں گے وقت کا گھوڑا بگٹٹ دوڑتا جارہاہے۔یہ نہ ہو کہ ہم ہاتھ ہی ملتے رہ جائیں”ساری گلاں دی اکو ای گل”کہ اگر مشترکہ اسلامی فوج فوری بنا کر مشترکہ اسلامی بنکنگ مشترکہ تجارت شروع نہ کی گئیں تو بابا پھر یہ سب کہانیاں ہیں !وقت کاایک مناسب ٹانکا بعد میں سینکڑوں ٹانکے لگانے سے محفوظ رکھتا ہے۔

Dr Ihsan Bari

Dr Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری