تحریر : اظہر اقبال مغل،لاہور ہر ملک اور ہر جگہ کی ایک اپنی ثقافت ہوتی ہے وہ ملک دْنیا میں اپنی ثقافت کی وجہ سے جانا جاتا ہے کہ فلاں ملک کے لو گوں کے رسم و رواج کیا ہے ان کا رہن سہن کیا ہیان کا مذہب کیا یہ سب اس ملک کی یا اس ریاست کی ثقافت کا ہی حصہ ہے ہم پاکستانی ہیں اگر ہم کسی دوسرے ملک میں چلے جائیںوہ لوگ ہماری عادات سے پہچان لیتے کہ یہ پاکستانی ہے کیونکہ ہم میں کہیں نہ کہیں ہم میں کوئی بات ایسی ہو گی کہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ بندہ کسی جگہ سے تعلق رکھتا ہے اب مغرب کی ثقافت کچھ اور ہے شمال میں رہنے والے باشندے اپنے طریقے سے زندگی گزار ہے ہیں اسی طر ح مذہب اور ثقافت کا آپس میں گہرا تعلق ہے کیونکہ ہر قوم اپنے مذہب کے تابع رہ کر ہی اپنی زندگی بسر کرتا ہے انسان کی زندگی میں مذہب کی بہت اہمیت ہے۔
اگر کوئی انسان کوئی مذہب تبدیل کرتا ہے تو سمجھیں کہ اس کو اپنی ثقافت بھی تبدیل کرنی پڑے گی ورنہ جو مذہب اس شخض نے قبول کی ہے اس پر پوری طرح پرا عمل نہیں ہوسکتا جس طرح اسلام میں جو چیزیں حرام ہیں دوسرے مذاہب میں ہلال ہیں اگر کوئی شخض اسلام قبول کرتا ہے تو اس کو پھر اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزارنی ہوگی جو اشیاء اسلام میں حلال ہیں وہ کھانی ہونگی جن باتوں سے اسلام منع کرتا ہے اْن سے باز رہنا پڑے گا تب ہی وہ ایک سچا مسلمان ہے اسی طرح دوسرے مذاہب کا ہے کوئی بھی اپنا مذہب تبدیل کرے گا تو اْس کو عین اس مذہب کیمطابق عمل کرنا پڑے گا اور خود کو پوری طرح اس سانچے میں ڈھالنا پڑے گا آج جس خطہ میں ہم آباد ہیں اس کی تاریخ بہت قدیم ہیں ہزاروں سال پرانی ہے اس خطہ میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اآباد ہیں لیکن بت پرست اس خظہ کے سب سے پرانے اور مقامی باشندے ہیں جو صدیوں سے اپنے باپ دادا کے طور طریقوں پر چلتے آرہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال انڈیا میں اآج بھی ملتی ہے وہاں کے کلچر اور پاکستان کے کلچر میں کافی چیزیں ایک جیسی ہیں اور کافی مختلف ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ 712 میں جب اس خطے میں اسلام آیا تو اس کا کوئی اور رنگ تھا لیکن ادھر کے کافی باشندوں نے اسلام کافی تیزی سے قبول کیا۔
Islam
اْن میں شعور بیدار ہوا کہ جو وہ کر رہے ہیں غلط ہیں اور بڑی تعداد میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اس وقت اسلام تو تیزی سے پھیلتا گیا لیکن اصلاح ٹھیک طرح سے نہ ہوسکی کیونکہ اس وقت عالموں کی کمی تھی اس لیئے ابتدائی تعلیم ہی دی جا سکی جس کی وجہ سے اس وقت اصلاح نہیں ہو سکی م اور کچھ جس خطہ میں ہم آباد تھے اس کے رسم و رواجوں رد کر کے ہم خود کو اسلام کے عین مطابق نہ ڈھال سکی پاکستان کو الگ ملک اسی بنیاد پر بنایا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں دونوں کے کلچر اور مذہب میں زمیں اآسمان کا فرق ہے اس لیئے مسلمانوں کو ایک الگ ملک چاہیے جہاں ہر طرح کی آزادی ہو اگر آج بھی پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو کافی چیزیں ہیں جو ہمارے بڑوں کی ثقافت کا حصہ رہی ہیں اور ہماری بھی ثقافت حصہ ہیں وہ چیزیں ہم نے اسلام تو قبول کر لیا لیکن اسلام کو خود پر پوری طرح مسلط نہیں کیا۔
ہم نے آج ان رسموں کو جو ہمارے بزرگوں سے ملی ہیں ہمیں ان کو اسلام کا حصہ بنا لیا ہے جو کہ غلط ہے یہ باتیں یہ چیزیں ہمارے کلچر کا حصہ تو شائد بن جائیں لیکن اسلام کا حصہ کبھی نہیں بن سکتی اس لیے ہمیں ان پرانی روایات کے کنارہ کشی اختیار کر خود کو اسلام کے تابع بنانا چاہیے نہ کہ ان رسم ورواج کا غلام بننا چاہیئے اسلام جن سے سختی سے منع کرتا ہے ہم سچے مسلمان اس قت بن سکتے ہیں اور ایسے اسلام دشمن عناصر سے نپٹ سکتے ہیں ہم آج بھی ان پرانے اور بے مقصد رسم ورواج کے غلام ہیں اور ان کو اسلام کا حصہ بنا لیا ہے جیسے اسلام میں میلوں کا کوئی کنسپٹ نہیں ہے ہاں اگر کلچر کا حصہ کہا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا کسی دور میں انٹیرٹینمنٹ کا کوئی معقول ذریعہ نہیں تھا آج کی طرح میڈیا نہیں تھا بازار بھی اآج کی طرح نہیں تھی اآبادی کم تھی اس لیئے لوگوں کی تفریح کے لیئے میلے لگائے جاتے جن میں لوگ دور دور سے شرکت کرتے سارا سال کام کاج کر نے کے بعد میلہ ان کے لیئے تفریح کا بہترین ذریعہ ہوتا تھا اور میلہ سے ان لوگوں کو ہے وہ چیز مل جاتی تھی جو بازار میں دستیاب نہیں ہوتی تھی اور میلوں میں نوجوانوں کے لیئے بہت تفریح اور زور آزمائی کے مقابلے منعقد ہوتے تھیمیلے قدیم دور میں تفریح کا بہترین ذریعہ تھا لیکن آج ہم مسلمانوں نے میلوں کو اسلام کا حصہ بنا دیا ہے بلکہ کھلا شرک شروع کردیا ہے اسی طرح شادیوں کی ساری رسمیں جن سے اسلام منع کرتا ہے آج ہم میں اسطرح رچ بس گئی ہیں کہ ہیں کچھ بْرا ہی نہیں لگتا آج بھی ہم ان رسم و رواج کے تابع ہیں اور ان گنا کے کاموں میں حصہ لیکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
ہمین خود کو عین اسلام کے مطابق کرنا ہو گا اور خود کو ان رسم و رواج کی قید سے چھڑانا ہو گا اور جو ہم آئے دن اسلام میں تبدیلیاں کرتے ہین ان کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کر کہ قرآن و سنت پر عمل کرنا ہو گا ذرا سوچیں کہ اآج جو ہم کر رہے ہیں اس کی اجازت اسلام دیتا ہے یا کہ نہیں آج ہماری اس جہالت کی وجہ سے ہی اسلام میں بہت ساری بدعات ہونی شروع ہو گئی ہے اگر ان کو بروقت نہ روکا گیا تو اسلام خطرے میں پڑ سکتا ہے اس لیئے ہر انسان کو کو خود اپنی اصلاح کرنی ہو گی جو اسلام کے منافی باتیں ہیں ان کو رد کرنا ہی ایک سچا مسلمان ہونے کی دلیل ہے حضرت محمدۖ کی زندگی ہم مسلمانوں کے لیئے بہترین نمونہ ہے ہمیں صر ف اور صرف آپ ? کی ی پیروی و اتباع کرنی ہے نہ کہ خود سے اسلام میں اضافہ کر کے اسلام کی اصل حالت بگاڑنی ہے تب ہی ہم ایک مسلمان موم کی حیثیت سے یکجان ہو کر دشمن کے اردوں کو کمزور بنا سکتے ہیں آج بہت غور فکر کی ضرورت ہے کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اگر ہم تھوڑا اس کام کے بارے میں جان لین کہ خواہ یہ کام کرنے کی اجازت اسلام نے دی ہیاس کے کرنے سے ہمیں گناہ تو نہیں ملے گا پھر وہ کام کرے آج جو ہم کرتے ہے ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم یہ ثواب کما رہے ہیں یا کہ گنا ہ کر رہے ہیں اس لیئے اگر ہم کوئی بھی ایسا کام کرنے سے پہلے جس کے بارے میں شک شبہ ہو تو تحقیق کر لیں تو بڑے گہاہ سے بچ سکتے ہیں تب ہی ہم اسلام کے وفادار ہو سکتے ہے اللہ ہم سب کو حق پر چلنے کو توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)