تحریر: مولانا محمد عاصم مخدوم انسان کی صحت کا راز پاک و صاف غذا میں مضمر ہے۔ غذا سے متعلق اسلام کی تعلیمات میں اصول صحت کی پوری رعایت موجود ہے، ان پر عمل سے صحت پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آدمی امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ میٹھے پانی کا اہتمام: صحت کے لیے صاف اور میٹھے پانی کی بنیادی اہمیت ہے۔ گندے اور ناپاک پانی سے بہت سی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ صاف اور شیریں پانی استعمال ہو تو آدمی ان بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اس کی صحت برقرار رہ سکتی ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام سے اس کا اہتمام ثابت ہے۔
حضرت ابوطلحہ کا ایک باغ بیرحاء نام کا تھا۔ یہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے واقع تھا۔ اس کا پانی صاف اور میٹھا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا پانی نوش فرماتے تھے۔ (بخاری ) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے میٹھے پانی کا خاص اہتمام بھی ہوتا تھا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابویوب انصاری b کے مہمان ہوئے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے حضرت انس کے والد مالک بن نضر کے کنویں سے میٹھے پانی کا انتظام کرتے تھے۔(فتح الباری’ ج ١٠’ ص٧٤) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بیوت سقیاء سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پانی لایا جاتا تھا۔ مدینہ سے اس کا کافی فاصلہ تھا۔ امام ابن قتیبہ کا بیان ہے کہ دو دن کا فاصلہ تھا۔(ابودائود) رباح الأسود جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے وہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک مرتبہ بئر عرس سے پانی لاتے تو دوسری بار بیوت سقیاء سے فراہم کرتے۔ حضرت انس، حضرت ہند اور حضرت حارثہ ث جو حضرت اسماء کی اولاد ہیں، ازواج مطہرات کے گھروں میں بیوت سقیاء سے پانی پہنچاتے تھے۔ (فتح الباری ج١’ص٧٤) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ث اپنے گھروالوں کیلئے میٹھے پانی کا اہتمام فرماتے تھے۔ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میٹھے پانی کا اہتمام زہد کے منافی نہیں۔ یہ تعیش بھی نہیں ہے جس کی مذمت کی گئی ہے۔ میٹھا پانی پینا اور منگوانا مباح ہے۔ صلحا کا اس پر عمل رہا ہے۔ کھاری پانی کے استعمال میں کوئی فضیلت نہیں ہے۔(فتح الباری ١٠’ص٧٤) ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے بھوک محسوس کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری حضرت ابوالہیثم کے گھر کی طرف چلے تو یہ دونوں بزرگ بھی ساتھ ہولیے۔ جب گھر پہنچے تو ان کی اہلیہ نے خوش آمدید کہا اور بتایا ”ذھب یستعذب المائ” وہ میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ اتنے میں حضرت ابوالہیثم بھی پہنچ گئے اور آپ حضرات کی ضیافت کی۔ (مسلم ) اسوۂ حسنہ سے جیسے معلوم ہوا کہ میٹھا پانی پینا مستحسن ہے اور کھارے پانی پینے اور استعمال کرنے میں تقوی و دین داری کے خلاف کوئی نہیں اسی طرح اسلام کھانے پینے اور دیگر اشیا کو ڈھانپ کر رکھنے اور آلودگی سے بچانے کا حکم دیتا ہے۔ (خمروا النائ)(ترمذی ) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”برتن کو ڈھانپ کر رکھو”۔ (أوکئوا السقاء و أکفئوا النائ)(مسلم ) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کھانے اور پینے کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھو”۔جس پانی کو اللہ تعالیٰ آسمان سے برساتا ہے وہ پاک، صاف ستھرا، پینے کے موزوں اور طہارت کے قابل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ھو الذی انزل من السمآء مآئ) (النحل ۔١٠) وہی ہے جس نے تمہارے پینے کے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ (و انزلنا من السمآء مآء طہورا) (الفرقان۔٤٨) اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا۔ (و انزل من السمآء مآء لیطھرکم)(الانفال ۔١١) اور وہ آسمان سے تم پر پانی برساتا ہے تاکہ تمہیں پاک کرے۔ اسلام ہمیں پانی کو آلودہ اور ناپاک بنانے سے منع کرتا ہے، خصوصاً ٹھہرے ہوئے پانی کو اسی لیے اس میں پیشاب، پاخانہ اور غسل کرنے سے منع کیاگیا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: ”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے”۔ (لا یبولن أحدکم ف الماء الدائم) (بخاری ) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”تم اس ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرو جو چلتا نہیں پھر اس میں نہانے لگو”۔رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میںسے کوئی جنابت کی حالت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز غسل نہ کرے”۔ اسی طرح ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: ”لعنت کے تین کاموں سے بچو۔ پانی کے مقامات، راستے کے درمیان میں اور سایے میں پاخانہ کرنے سے”۔ (اتقوا الملاعن الثلاث: البراز ف الموارد و الظل و قارعة الطریق) (ابن ماجہ ) ان تمام آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اسے گندگی، غلاظت اور کیڑے مکوڑوں کے گرنے سے محفوظ رکھنا چاہیے جو بیماری کے اسباب کو منتقل کرتے ہیں اور امراض کا باعث بنتے ہیں۔
Muhammad PBUH
جس طرح بڑوں کو یہ ہدایت ہے اسی طرح بچوں کے لئے بھی صاف اور شفاف پانی کا اہتمام وانتظام ضروری ہے۔ بچوں کے لئے صاف پانی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بچے مختلف بیماریوں میںمبتلا ہوتے ہیں۔ ڈینگی مرض: آج کل وطن عزیز میں ڈینگی بخاری سے ہزاروں لوگ ہسپتالوں میں پڑے ہیںاورسینکڑوں لوگ اس کا لقمہ اجل بنے۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری بالٹیوں’ کنوئوں اور جوہڑوں میں موجود گندہ پانی ہے۔جس میں اس ڈینگی مچھر کی نشوونما ہوتی ہے’ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک ارشادات پر عمل کرکے پانی کو ڈھانپے توا س مرض سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ہرسال پانچ سال تک کے ساڑھے سات لاکھ بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہت سے دوسرے بچے ان بیماریوں سے معذور ہوجاتے ہیں’ ان میں سے کافی تعدا د میں بچوں کو آسان علاج ‘ مناسب دیکھ بھال اور وقت پر حفاظتی ٹیکے لگوا کر بچایا جاسکتا ہے۔ بچے کی عمر کے دوسرے سال کے دوران خسرہ کا دوسرا ٹیکہ بھی ضرور لگوائیں۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال تقریباً سات لاکھ بچے نمونیہ کا شکار ہوجاتے ہیں’ جن میں سے 27ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔5سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں 5.7 فیصد کی وجہ نمونیہ ہے۔جبکہ پولیو کی وجہ سے پاکستان پر سفری پابندیاں لگ رہی ہیں۔اس وجہ سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ویکسی نیشن سسٹم کو مزید موثر اور محفوظ کیا جائے۔علمائے کرام اس حوالے سے عوام الناس کے شکوک و شبہات کا خاتمہ کریں۔ کیونکہ عالم اسلام کے تمام علمائے کرام مذہبی قائدین اور اسلامی طبی تنظیمیں ،عالمی اسلامی ادارے وغیرہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ اورمغرب کے دوسرے ممالک میں یہ مرض اِسی ویکسین کے ذریعے ختم ہوا،تو عالم اسلام میں بھی یہ صرف اسی ویکسین کے ذریعے ختم ہو گا۔