بدر (جیوڈیسک) سترہ رمضان المبارک وہ دن ہے جس روز اقلیت نے اکثریت اور اسلام نے کفر کو شکست د ی تھی۔ ایک طرف 1000 کا طاقتور لشکر تھا۔
جس کے پاس مکمل اسلحہ ، مادی وسائل، تھے اور ساتھ ہی مختلف قبائل کااتحاد بھی تھا۔ اس کے برعکس دوسری جانب اہل ایمان کے لشکر میں محض 313 جانثار تھے، جو جذبہ ایمانی سے لبریز تھے۔
بدر کا مقام مدینہ منورہ سے تقریبا ڈیڑھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ مسلمانوں نے بدر کے شمال میں واقع عدوت الدنیا میں پڑاو ڈالا۔ دوسری جانب مشرکین نے عدوت القصویٰ کے مقام پر اپنے خیمے لگائے ۔ معرکے کی نگرانی کے لئے رسول پاک ﷺ کے لئے ایک اونچے ٹیلے پر کھجور کے تنوں کا سائبان بنایا گیا۔
جس جگہ اب ایک مسجد بنا دی گئی ہے جس کا نام مسجد العریش ہے۔ نبی کریم ﷺ نے سولہ اور سترہ رمضان کی درمیانی شب مسلمانوں کی فتح کے لئے رب کے حضور گریہ زاری اور دعا کی۔ سترہ رمضان کی صبح مسلمانوں اور کفار کے لشکر آمنے سامنے ہوئے۔ مسلمانوں کا لشکر بے سروسامانی کی حالت میں تھا۔ فاقہ کشوں کے اس لشکر کے پاس مکمل سامان حرب بھی نہیں تھا۔
313 کے لشکر میں صرف دو گھوڑے جن پر تمام لشکری باری باری سواری کرتے تھے ، لیکن اس لشکر کے پاس ایمان کی طاقت تھی اور سینوں میں سرفروشی کاجذبہ موجزن تھا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو کفار کے رعونت سے بھرپور سر، شمشیر ایمانی کی ضرب سے کٹ کٹ کر گرتے رہے، یہاں تک کے کفار کے پاؤں اکھڑ گئے ، میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔
اس جنگ میں 14 مسلمان شہید ہوئے اور 70 افراد ہلاک ہوئے۔ اور اتنے ہی قیدی بنا لئے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں مکہ کے کئی سرداراور بااثرافراد بھی تھے۔ ان میں سرفہرست ابوجہل ہے جو کہ دو کم عمر صحابہ کرام حضرت معاذؓ اور حضرت معوذ ؓ کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ الہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے امت مسلمہ آج بھی خدا کی نصرت کے طفیل کامیاب و کامران ہو سکتی ہے۔