اسلام وہ دین متین ہے جس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔یہودیت و عیسائیت اور دیگر مذاہب کی افراط و تفریط سے اسلام آزاد ہے اور اسلام نے حامل شریعت کو اعتدال پر مبنی نظام زندگی عنایت کیا ہے جس کی بدولت انسان پر دین اسلام پر عمل کرنا آسان تر ہوگیاہے۔اسلام اصول اور فروع کے مجموعہ کا نام ہے۔ اصول اسے کہا جاتاہے جس پر اکثریت اتفاق کرتے ہوں۔اصول کے باب میں امت کا کوئی بھی طبقہ اختلاف سے دوچار نہیں ہوابلکہ سب کے سب اس پر متفق ہوتے ہیں جیسے علماء کی اکثریت کفر و خروج (ملت سے نکل جانے )کا حکم لگادے۔فروعی اختلاف یہ ہے کہ اس بارے میں رسول اللہۖ کی احادیث وارد ہوئی ہوں اور ان احادیث کو سند و متن کے لحاظ سے قوی و ضعیف قراردیا گیا ہومختلف طبقوں کے یہاں۔یعنی رسول اللہۖ کی احادیث میں تنوع ہے کہ عین ممکن ہے کہ جو مکتب فکر کسی حدیث کو درست کہہ رہاہو اس کے صحیح ہونے کیی دلیل دوسرے طبقہ کے پاس نہ پہنچی ہواس وجہ سے ایک نے حدیث کو درست اور دوسرے نے غلط قراردیا۔یہی وجہ ہے کہ آئمہ فقہاء نے ایک بنیادی اصول بیان کردیا ہے کہ اگر حدیث درست ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔گویا اس صحیح حدیث پر عمل کیا جائے گا نہ کہ ان کی رائے پر۔اگر چہ لوگ اس عمل سے ناآشنا ہی کیوں نہ ہوں عمل حدیث پر ہی کرنا ہوگا۔
احناف کا اس سلسلہ میں موقف ملاحظہ کیجیے۔۔ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ ابواداود کی روایت ہے کہ جبرئیل نے رسول اللہۖ کو عصر کی نماز پڑھنے کا حکم اس وقت دیا جب ایک چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے ۔اسی طرح دوسرے فریق کا یہ کہنا ہے کہ حضرت انس بن مالک کی حدیث ہے کہ رسول اللہۖ اس وقت نماز پڑھتے عصر کی جب سورج کی حرارت موجود ہوتی تھے،سورج اپنے جوبن پر ہوتاتھا۔اس میں بات کو واضح کیا گیا ہے کہ سورج کی حرارت سخت ہوتی اور دن روشن بھی ہوتاتھا ایسے میں زیادہ سے زیادہ مسافت دو میل اور زیادہ مسافت چھ میل ہوتی تھی۔ یہ ایک بات ہے جس میں دومختلف اقوال وارد ہوئے ہیں۔اس قول پر امام نووی اور امام شافعی نے حیرت و استعجاب کا اظہار کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی دومیل سفر کرکے اپنے اہلخانہ سے مل کر لوٹے تو سورج کی تپش برقرار رہے۔وہ اپنے جوبن پر موجود ہو۔ البتہ احناف کا دوسرا قول یہ ہے کہ نماز عصر کا وقت اس وقت ہوجاتاہے جب کسی شئے کا سایہ دوگنا بڑھ جائے۔یہی حنفیوں کا مشہور و معروف قول ہے۔ابن قییم نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ عصر اور سورج کے غروب ہونے میں ضروری ہے کہ ظہر و عصر کے درمیان وقفہ سے کم ہو۔اس سلسلہ میں یہ دوسری دلیل دی جاتی ہے کہ نبی اکرمۖ نے فرمایا کہ”عصر کی نماز کو ٹھنڈ کرکے پڑھو،گرمی کی تپش میں جہنم کی آگ کی جھلک موجود ہے”۔اس حدیث کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ ظہر کے بعد دن ٹھنڈا ہونا شروع ہوجاتاہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ حدیث نسبی ہے کہ ایسے ملک کے بارے میں کیا حکم ہے نماز عصر پڑھنے کا جہاں پر اصل میں ہوہی ٹھنڈو سردی۔
دوسرے مذاہب میں اس حدیث سے مراد یہ لیا گیا کہ یہ حکم ظہر کی نماز سے متعلق ہے ۔۔۔بعض نے کہاہے کہ موسم کی سختی کے سبب لوگوں کو نقصان پہنچنے کا امکان تھا لہذا اسلامی تعلیمات میں رحمت کا عنصر غالب ہونے کی وجہ سے یہ معنٰی لیے گئے کہ سخت موسم میں نماز ٹھنڈی کرکے پڑھیں ۔قرآن کریم کا ارشاد ہے ”آپ پر دین میںکوئی حرج نہیں ”۔ہم اختلافی موضوع کو طول نہیں دینا چاہتے کیوں کہ یہ مقام اختلافات کے بیان کا نہیں ،ایسے میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب باتیں مذہب حنفی کی تھیں ،تمام فقہاء حنفی و مالکی و شافعی اور حنبلی سب کے سب ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود قلب و جان سے محبت و مودت اور احترام کو روارکھے ہوئے تھے۔اب جبکہ مسلم معاشرے میں احادیث ہر ذی علم کی دسترس میں آچکی ہیں۔ اس بناپر ہر مذہب کے پیروکار اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ سب سے زیادہ صحیح حدیث اور حق بات پر عمل کرے اسی کی اسلام نے تاکید بھی کی ہے۔ہمیں اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے کہ تمام مذاہب کے فقہاء ایک دوسرے پر تہمت،طعن و تشنیع اور گمراہی کا الزام عائد نہیں کرتے تھے بلکہ وہ باہم ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔
اور اسی طرح بعض لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا کسی مسلک و مذہب کے پیروکار کے لیے درست ہے کہ وہ دوسرے مذہب کے امام کے پیچھے نماز پڑھے۔یعنی حنفی و شافعی اور حنبلی و مالکی مذہب کے پیروکار ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔جی ہاں کسی بھی مذہب کے پیروکی اقتداء میں نماز پڑھی جاسکتی ہے اس میں بنیادی اصول یہ ہے کہ جس شخص کی اپنی نماز اداہوجاتی ہے وہ امامت کے فرائض بھی انجام دے سکتاہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دین میں بہت آسانیاں پیدا کی ہیںتاکہ دین پر عمل کرنے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی بناپر دین اسلام کو دین رحمت کہا جاتاہے۔مسلمانوں کے سامنے متعدد آراء کا موجود ہونا اس لیے ہے کہ جو اس میں سے مناسب سمجھے اس پر عمل شروع کردے۔
قرآن کریم میں ایک بنیادی نکتہ بیان ہواہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوںکے لیے دین پر عمل کرنا مشکل نہیں بنایا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرد بشر بآسانی شریعت مطہرہ پر عمل کرگذرے۔یہ اللہ تعالیٰ کا رحم ہے انسانوں پر کہ حالت سفر میں چاررکعت والی نماز کو دورکعت میں تبدیل کردیا۔ اسی طرح نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا بھی درست ہے حالت سفر ظہر اور عصر تقدیم کے ساتھ مغرب اور عشاء تاخیر کے ساتھ۔شریعت نے انسانوں کے احوال و وقائع کا لحاظ و پاس ملحوظ خاطر رکھاہے۔موجودہ زمانے میں بھی بہت سے علماء اور فقہاء نے جدید مسائل پر غور و خوض کرکے ان کا حل پیش کیا ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر آپریشن تھیڑمیں جاتاہے آپریشن کرنے کے لیے اور آپریشن می کئی گھنٹے صرف ہونے کا اندیشہ ہوتو ایسے میں ان کو اجازت ہے کہ وہ دونمازیں ایک ساتھ اداکرلیں یعنی ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب عشاء کے ساتھ اداکرلے تو اس کی نماز اداہوجائے گی۔
دین بہت آسان ہے اور اس میں رحمت کے بے حد و حساب پہلو موجود ہیں بس اگر انسان عمل کرنے کا متمنی ہو،اس میں کوئی جبرو اکراہ نہیں کہ وہ حنفی مذہب کو اختیار کرتاہے یا شافعی و مالکی اور حنبلی میں سے کسی پر بھی بسہولت کرسکتاہے۔آئمہ فقہاء نے اچھے ادب و آداب کو اختیار کرتے ہوئے اللہ و رسول اللہۖ اور علم کے ساتھ وفاداری و حسن سلوک کا معاملہ اختیار کیا ہے ۔لیکن مرورزمانہ کی وجہ سے ان کے پیروکار ایک دوسرے پر آوازے کستے نظر آتے ہیں جو کہ کسی صورت درست نہیں۔