تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز ہارٹ آف ایشیا کا نفرنس میں شرکت کے لیے بھارت تشریف لے گئے کانفرنس میں انہوں نے پاکستانی مٔوقف کی بھرپور انداز میں وکالت کی جس کی چھبن بھارتی نیتائوں کو محسوس ہوئی تو انھیں جلد از جلد پاکستان واپس بھجوانے میںہی عافیت جانی انھیں شرکاء میں سے کسی سے میل ملاقات کا وقت بھی نہ دیا حتیٰ کہ بھارتی صحافیوں سے بات چیت کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔اور پریس کانفرنس تک بھی نہ کرنے دی جو کہ سفارتی اداب کے خلاف اور انتہائی قابل مذمت اقدام ہے ۔ہر معاملہ پر بتا یا گیا کہ ہم آپ کو سیکورٹی فراہم نہیں کرسکتے اور ہر ہم آپ کی سیکورٹی کا رسک بھی نہیں لے سکتے ۔مودی سرکار کی سینکڑوں مسلح تنظیمیں اور عددی اعتبار سے پاکستان سے تین گنا بڑی فوج رکھنے والا ملک ایک مسلمان وزیر خارجہ کو تحفظ بھی نہیں دے سکتا تو پھر ان کے یہ سب لائو لشکر پولیس اور کھربوں ڈالر کا اسلحہ کیا بھنگ گھوٹنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔مذکورہ کانفرس تو کامیاب رہی علاقائی اور دہشت گردی کے مسائل پر پاکستانی مؤقف کی تائید تقریباً سبھی ممالک کرتے پائے گئے۔اس طرح بھارت کی طرف سے پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرنے کی تمام مذموم کوششیں ناکام ہو گئیں۔در اصل بھارت کا وجود ہی اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر قائم ہے۔اشرف مودی بھائی بھائی کے نعرے پاکستان کو مشتعل کرنے کے لیے لگائے گئے پہلے بھارت سارک کانفرنس کو ملتوی کرواچکا تھا اور اب اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانا تھا اور اس کا مذموم مقصدتو پورا نہ ہو سکا۔
پاکستان بھر کی 31 سیاسی جماعتیں اس کانفرنس میں نہ جانے کی قرار داد پاس کر چکی تھیں مگر ہمیں مودی بھائی کی ناراضگی کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے سرتاج عزیز کو بغیر فوجی و دیگر مشاورتوں کے کانفرنس میں بھجوانا پڑا۔ہمارے حکمران تو ویسے ہی لیکس کی وجہ سے لیک کر رہے ہیں انھیں دنیا و مافیہاکی خبر تک نہ ہے صحافیوں کو لیکر سرتاج عزیزکو بھارت جانا پڑا ائیر پورٹ سے ہی باہر ایک گھنٹہ تک نہ نکلنے دیا گیاصحافیوں کو بھارت میں سمیں بھی نہ دی گئیں کہ کوئی خبر ہی چلا سکیں غرضیکہ “بھارتی جیل “میں نظر بند رہ کر ایک روز قبل ہی واپس آگئے قوم کے روکتے روکتے کانفرنس میں جا دھمکناپاکستان کی طرف سے بھارت کو علاقائی تھانیدار نمانمبر دار ماننے کے مترادف ہے۔عوامی رائے کے خلاف قائم مودی یاری کا یہی نتیجہ نکلنا تھا وہاں پہنچ کرویسے ہی شرمند گی اٹھانا پڑی کہ بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کو چے سے ہم نکلے کے مصداق لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ہندو بنیوںنے اشتعال انگیز ماحول پیدا کرکے بابری مسجد کو شہید کرڈالا جس میں بڑا کردار موجودہ وزیر اعظم کا ہی تھا۔جنہوں نے سارا الیکشن ہندو برتری اور مسلمان دشمنی کی بنیاد پر لڑا کہ اس طرح ہندوئوں کی بھاری اکثریت نے انھیں ووٹ دے ڈالا ۔ان کی دیکھا دیکھی نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اسی طرح کی پالیسی اپنائی غریب مزدور گوروں اور دیہاتیوں کے ووٹ کے حصول کے لیے مسلمانوں اور سیاہ فام امریکنوں کے خلاف سخت تقریریں کیں۔اور پورے ملک میں فرقہ وارانہ جنگ و جدل کی کیفیت پیدا کرکے کامیابی تو حاصل کر لی مگر امریکی ریاستوں اور ان کے عوام میں ہمہ وقت سر پھٹول کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ہزاروں افراد ملک چھوڑنے کی تیاریوں میں ہیں۔گو ہیلری کلنٹن سے22لاکھ کم ووٹ حاصل کیے مگر پھر بھی ٹیکنیکل بنیادوں پر جیت گئے۔
American and India
ٹرمپ اور مودی کی جیت ان ممالک کے جمہوری چیمپئن کہلانے کی سراسر نفی کرتی ہے دونوں ہی دنیا کے ان بڑے ممالک پر سیاہ دھبوں کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔امریکہ بھی اس افرا تفری کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کی سمت گامزن ہے اور بھارت میں تو کئی سال سے سکھ و دیگر اقلیتیں علیحدہ ریاستوں کے وجود کے لیے کوشاں ہیں۔انتخابات کے دوران اور بعد میں جمہور ووٹروں کی قتل و غارت گری کسی عذاب الہٰی سے کم نہیں ان ممالک کی اعلیٰ قیادت اور باشعور افراد اگر یو نہی سوئے رہے تو ان ملکوں کو تباہی سے دو چار ہو جانے سے کو ئی نہ روک سکے گا بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں کرداروحشت و بر بریت کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے پانچ ماہ سے جاری تشدد اور مکمل کرفیو سے سینکڑوں نوجوان شہادت پا چکے اور ہزاروں آنکھوں سے محروم و دیگر ہسپتالوں میںشدید زخمی پڑے ہیں۔مودی سرکار اپنے سیاہ رو چہرہ کی کالک کو دھو نے کا انتظام کرنے کی بجائے پاکستانی سرحدوں پر بھی مسلسل گولہ باری کر رہی ہے شہیدوں کے وارث افواج پاکستان کے سابق سربراہ جناب راحیل شریف اور موجودہ کمانڈر جناب قمر باجوہ بھارتی سرکارکوکئی بار انتباہ کرچکے ہیںکہ باز رہوبازرہومگرہندو بنیوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی غالباً کائنات کے مالک نے بھارت کی شکست پاکستان کے ہی مقدر میں لکھ دی ہے پاکستان ایٹمی ملک ہونے کے ناطے صرف دو تین منٹ کے اندر اندر بھارت کے تمام بڑے شہروں کو راکھ کا ڈھیر بناڈالنے کی اہلیت رکھتا ہے مگر اسلام کی تعلیمات محمد ۖ کی سنت اور خلفائے راشدین کی حکومتوں کی پالیسیاں پاکستانی مسلمانوں کو ایسی بھیانک جنگ سے باز رکھے ہوئے ہیں۔
کہیں تنگ آمد بجنگ آمد کی طرح مجبوراً ایٹمی پاکستان کو کاروائی کرنا پڑ گئی تو عالمی جنگ چھڑ جانے کا امکان ہے اسی لیے پاکستان ایسا کوئی ایکشن نہیں لے رہا ۔پاکستانی عوام بجا طور پر کئی بار بھارتیوں کو انتباہ کرچکے ہیں کہ کشمیر میں مظالم بند کرو فوراً اپنی افواج مقبوضہ کشمیر اور پاکستانی بارڈروں سے ہٹالو کہ یہ عمل تمہارے اور بھارتی عوام کے ہی مفاد میں ہے۔1965کی سترہ روزہ جنگ میں بھارتی ہر محاذ پر شکست پا کر اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو گئے تھے ہمارا مشرقی بازو بھی ہم سے کبھی علیحدہ نہ ہوتا اگر ہمیں میں میر جعفر اور میر صادق پیدا نہ ہو جاتے ۔اب تو پوری قوم متحد ہو کر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے مگر انڈیا میں درجنوں ریاستوں میں اندرونی کشمکش ذوروں پر ہے۔
دونوں ملکوں کاامن برقرار رکھنا ہی دونوں طرف کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑا سکتا ہے دیگر تمام طریقے تباہی پر ہی منتج ہوں گے در اصل ہندوئوں کو مسلمانوں کا پورے بھارت پر ایک ہزار سالہ اقتدارنچلا نہیں بیٹھنے دیتا اور ان کی اندرونی خباثت انھیں چھیڑ خانی پر مجبور کرتی رہتی ہے۔حالانکہ بھارتی بخوبی سمجھتے ہیں کہ وہ نہ تو ان کے ہاں بسنے والے پچیس کروڑ مسلمانوں کو صفہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں اور نہ ہی ایٹمی پاکستان کا بال تک بیکا کرسکتے ہیں اگر انہوں نے دنیا کی نمبر ون فوج سے ٹکرانے کی کوشش کی تو کیا پدی کیا پدی کا شوربا اپنے آپ کو مکمل تباہی سے نہ بچا سکیں گے۔