تحریر: نعیم الرحمان شائق “پیارے بھائیو! اب ہم اس ملک کے چپے چپے پر اسلام کا نفاذ کریں گے ۔اس کے لیے ہمیں جان دینی پڑے تو دے دینی چاہیے ۔ اسلام قربانی مانگتا ہے ۔ اگر ہم قربانی نہیں دیں گے تو کون دے گا ۔ سو اٹھ کھڑے ہوں اور اسلام کا علم اٹھا کر دشمنوں کی صفوں میں گھس جائیں ۔ یہ صرف نام کا اسلامی ملک ہے ۔ یہاں کے لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ یہ مرتد ہو چکے ہیں ۔ انھیں مارنا فرض ہو چکا ہے ۔ یہ ہمارے بھائی نہیں ہو سکتے ۔ کیوں کہ یہ ہمارے دشمنوں کو دوست بناتے ہیں ۔ قرآن جنھیں ہمارا دشمن کہتا ہے ، وہ ہمارے دوست کیوں کر ہو سکتے ہیں ؟ اس لیے اب یہ بھی ہمارے بد ترین دشمن ہیں ، جن سے انتقام لینا از حد ضروری ہے ۔ ” مزاحمتی تنظیم کے ایک جو شیلے نو جوان نے اپنے ساتھیوں کو جذبات دلانے کے لیے یہ جملے کہے ۔ جو شیلا نو جوان بیٹھ گیا ۔ 40 سے 45 لوگوں کا یہ گروہ سوچ و بچار میں مصروف ہوگیا ۔ قدرے توقف کے بعد ایک نوجوان کی آنکھیں چمکیں ۔ جیسے اس کے ذہن میں کوئی فاتحانہ خیال آگیا ہو ۔ وہ اٹھ کھڑا ہو ا اور اپنے ساتھیوں سے گویا ہوا : “جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں چند غیر ملکی باشندے آئے ہوئے ہیں ۔ انھیں قتل کرنا ہم پر فرض ہے ۔کیوں کہ یہ یہود و نصاریٰ ہیں ۔ یہ ہمارے بدترین دشمن ہیں ۔ اگر ہم ان پر ایک زور آور اور جان لیوا خود کش حملہ کر دیں تو ہمارے بے چین روح شانت ہو جائے گی۔
ہمیں قرار آجائے گا ۔” نو جوان خاموش ہوا تو مجمع میں سے آواز آئی : “ہاں ہاں ، یہ اقدام اسلام کے نفاذ کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہوگا ۔ ” ایک بار پھر خاموشی چھا گئی ۔ذرا سی دیر کے بعد ایک نو جوان کھڑا ہوا اور اپنے ساتھیوں سے یوں مخاطب ہوا: آپ تو جانتے ہیں کہ ایک فرقے کے لوگوں نے ہمارے کئی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ یہ علاقے امریکا بہادر کی مداخلت سے پہلے ہمارے ہاتھ میں ہوا کرتے تھے ۔ اب انھوں نے قبضہ کر لیے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں ۔ انھوں نے اسلام کی روح گھائل کی ۔ یہ سواد ِ اعظم سے الجھے ۔ ان کا وجود دنیائے اسلام کے لیے سخت خطرناک ہے ۔ ان کو نیست و نابود کرنا فرض ہے ۔ ہم اس جمعہ کو ان کی عبادت گاہ پر خود کش حملہ کریں گے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ قدم بھی اسلام کے نفاذ کے لیے کارگر ثابت ہوگا ۔اب مجھے یہ بتاؤ کہ خود کش حملے کے لیے کون تیار ہے ؟”نوجوان کے سوال پر تقریبا سارے نوجوانوں کے ہاتھ بلند ہوگئے ۔نوجوان سبحان اللہ ، سبحان اللہ ، کہتا ہوا بیٹھ گیا ۔
Mosque Attack
پھر سوچ و بچار کی گئی ۔ ہر ایک کو اس کا ٹاسک بتایا گیا ۔ کس کو کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے ، یہ سب کچھ بتا دیا گیا ۔ دو دن بعد اخبارات اور میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایک ملک میں یکے بعد دیگرے دو حملے ہوئے ۔ ایک غیر ملکی وفد پر اور دوسرا عبادت گاہ پر ۔ عبادت گاہ پر حملہ دوران ِ نما ز ہوا ۔ کئی لوگ ہلاک اور شہید ہوئے ۔ مگر حملہ آوروں کے نزدیک مردار ہوئے ۔ عالمی میڈیا چیخ اٹھا ۔ اس ہول ناک واقعے کی عالمی طور پر مذمت کی گئی ۔ مگر زیادہ مذمت غیر ملکی وفد پر کیے جانے والے حملے کی کی گئی ۔ کچھ عالمی میڈیا کی مذمت کا دباؤ تھا اور کچھ دوست ملک کی دوستی کے بھرم کا دباؤ تھا کہ ایک اسلامی ملک میں کئی مساجد پر تالے لگا دیے گئے ۔ یعنی نماز پر قد غن ۔ وہ بھی ایک مسلم ملک میں ۔ وجہ یہی حملے ٹھہری ، جو نفاذِ اسلام کے نام پر کیے گئے ۔
ایک بوڑھا دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں ظہر کی نماز ادا کرنے جارہا تھا ۔بوڑھے کی آنکھوں سے بزرگی چھلکتی تھی ، جو اس بات کی غماز تھی کہ یہ بوڑھا پابند ِ صوم و صلوۃ ہے ۔ اس نے چند نقاب پوشوں کو دیکھا ۔ آن کی آن میں اس کا خون کی گردش تیز ہوگئی ۔اس کا پورا وجود غصے سے بھر گیا ۔ وہ مسلح نقاب پوشوں پر بغیر کوئی خوف کھائے برس پڑا:”ارے سنتےہو ۔۔ اسلام نافذ ہوگیا ۔ ہاں پورے ملک میں ۔۔پورے ملک کے ہر شہر میں ۔۔۔ ہر قریے میں ۔۔۔ہر گاؤں میں ۔۔۔ یہاں تک کہ ہر گلی میں ۔۔۔ اب نہ کوئی شراب پیتا ہے ، نہ کوئی جوا کھیلتا ہے ۔۔۔ لوگ نیک ہوگئے ۔۔۔ بھیڑیا اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں ۔۔۔۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی یاد تازہ ہونے لگی ہے ۔۔۔ فضائیں معطر ہیں ۔۔۔ رحمت ِ الہی کا نزول ہو رہا ہے ۔ نہ کوئی خوف ، نہ کوئی خطرہ ۔۔۔ زمین پر سونے کے سکے گرے پڑے ہیں ، کوئی اٹھانے والا نہیں ۔۔۔ تم نے تو تاریخ رقم کر دی۔۔۔ تمھیں جتنی داد دی جائے کم ہے ۔۔۔۔۔
Namaz
مسلح لوگوں کا دستہ بوڑھے کو یوں ہی بولتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے ۔ انھیں معلوم تھا کہ بوڑھا ان پر زبردست تنقید کر رہا ہے ۔ بوڑھا کی جراء ت ِ گفتار ان کے جبر پر غالب آگئی ۔ وہ چاہتے ہوئے بھی بوڑھے کو کچھ نہ کہہ سکے ۔ اس لیے وہ آگے بڑھ گئے ۔ ویسے بھی وہ اپنا وقت بوڑھے کی فضول گوئی سننے میں ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ کیوں کہ انھیں کچھ اور حملے کرنے تھے ۔ کچھ عبادت گاہیں گرانی تھیں ۔ کچھ مقتل خون ِ انساں سے سجانے تھے ۔ کچھ غیر ملکی مہمانوں کو “مردار کر نا ” تھا ابھی ان کو بہت سے کام کرنے تھے ۔ کیوں کہ اسلام کا نفاذ ابھی تک نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔