عالم اسلام کے ماتھے کا جھومر

Pakistan

Pakistan

یوم تکبیر یعنی 28 مئی پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جب پاکستان نے بلوچستان کے مقام چاغی میں ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کے ایٹمی کلب میں شمولیت حاصل کی اس سے پہلے امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور فرانس ایٹمی کلب کے ممبر تھے جبکہ بھارت 11 مئی 1998 کو راجھستان کے مقام پوکھران میں زیر زمین 200 میٹر گہرائی میں شکتی ون کے نام سے ایٹم بم کے 5دھماکے کرکے کلب میں شامل ہوا جس کے جواب میں پاکستان نے 28 مئی 1998 کو ضلع چاغی کے سلسلہ راس کوہ میں 1000 میٹر گہرائی میں چاغی ون کے نام سے 6 ایٹمی دھماکے کیے۔

کامیاب ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف پاکستان ٹیلی ویڑن پر تاریخ ساز اعلان کرتے ہوئے پھولے نہیں سمارہے تھے اور اس کامیابی پر بار بار اللہ کا شکر یہ ادا کررہے تھے ان کا یہ اعلان پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ” الحمدللہ” ہم نے گزشہ دنوں کے بھارتی ایٹمی دھماکوں کا حساب 6کا میاب ایٹمی دھماکوں سے چکا دیا ہے اب ہم پر کوئی دشمن شب خون مارنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔

کامیاب ایٹمی دھماکوں سے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا اور کامیاب ایٹمی تجربات نے ملت اسلامیہ پر پانچ صدیوں سے طار ی جمود توڑ کر اس کو خواب خرگوش سے بیدار کردیا اور جذبہ عقیدت میں اسلامی ممالک نے پاکستان کے اس جرات مندانہ اقدام پر مبارکباد پیش کی اور اخبارات کے صفحہ اول پر یوں سرخی لگائی” اللہ اکبر” پاکستان کا یہ تجربہ” نصر من اللہ” ہے جس نے اسلام کا پرچم بلند کر دیا ہے۔ پاکستان کا ایٹم بم ملت اسلامیہ کی نہ صرف علامت بلکہ اس کے اتحاد کی علامت بھی ہے جو عہد رفتہ کی عظمت کو واپس لانے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

کامیاب تجربات نے بھارت کے ایٹمی ایڈونچرازم کا دندان شکن جواب دے کر جنوب مشرقی ایشیا میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کو نہ صرف لگام دی بلکہ اس خطہ میں جو فوجی اور جوہری بالادستی سے عدم توازن پیدا ہو چکا تھا اس کے مذموم منصوبوں کو ان ایٹمی دھماکوں نے خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دراصل 1954میں ہی شروع ہوگیا تھا جب پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی گوہر نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر آمیزن ہاور سے ملاقات کی تھی اور پاکستان نے امریکہ کے ایٹم برائے امن( ایٹم فارپیس)کے منصوبہ میں شمولیت کے ساتھ ایٹمی توانائی کے شعبہ میں تحقیق اور ترقی کے لئے ایٹمی توانائی کے کمیشن کے قیام کا اعلان کیاتھا یہ آغاز تھا پاکستان کے جوہری پروگرام کا اور پاکستان کی طرف سے پیمان تھا کہ وہ جوہری توانائی کو اسلحہ کی تیاری کے لئے استعمال نہیں کرے گا۔

امریکی صدر کا ایٹم برائے امن کے منصوبہ کا اصل مقصد امریکہ کے علاوہ دوسرے تمام ملکوں کو جوہری اسلحہ کی صلاحیت سے محروم رکھنا اور ان پر قدغن لگا کر انہیں جوہری اسلحہ کی تیاری سے روکنا تھا۔ پاکستان کی طرف سے آمیزن ہاور کے اس منصوبہ کو تسلیم کرنے پر پاکستان میں بہت سے لوگوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ اس میں پاکستان سراسرگھاٹے میں تھا۔ دوسری طرف1947ء سے ہی پاکستان کے معرض وجود میںآنے کے بعد بھارت پاکستان کا دشمن بن گیا اور پاکستان کو ہر قیمت پر ختم کرنے کے درپے ہوگیا۔ 1960ء کے عشرے میں یہ خبر یں آنی شروع ہوگئیں کہ ہندوستان بڑی تیزی سے جوہر ی تجربات کی سمت بڑھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی قیادت نے جوہری اسلحہ کے میدان میں قدم رکھنے سے صاف انکار کردیاتھا حالانکہ1963ء میں ہی ذوالفقار علی بھٹو نے جو ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے اور ان کی نظریں بھارت کے ایٹمی پروگرام پر بھی تھیں انہوں نے کابینہ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان کو جوہری اسلحہ کی تیاری کے لئے پروگرام شروع کرنا چاہئے۔

صدر ایوب خان اور ان کے امریکہ نواز وزیر خزانہ محمد شعیب اور دوسرے وزیروں نے ان کی یہ تجویز یکسر مسترد کردی اور یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان جوہری اسلحہ تیار کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرے گا۔ 1963ء میں جب صدر ایوب خان فرانس کے دورے پر گئے تو وہاں فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال نے پاکستان میں جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پیش کش کی لیکن ایوب خان نے یہ پیشکش ان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل یحییٰ خان، صدر ایوب کے اعلیٰ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام اور منصوبہ بندی کمیشن کے نائب سربراہ ایم ایم احمد کے مشورے پر ٹھکرا دی کیونکہ ان کے سروں پر امریکہ کا ہاتھ تھا۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جو1971ء بنگلہ دیش کے نتیجہ میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد برسر اقتدار آئے اور پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔

Nuclear Explosions Pakistan

Nuclear Explosions Pakistan

صدر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد بھٹو نے، ایران، ترکی، الجزائر، تیونس، مصر اور شام کا طوفانی دورہ کیا اس دورے کے دو اہم مقاصد تھے ایک مقصد مسلم ممالک سے تجدید تعلقات تھا اور دوسرا پاکستان کے جوہری پروگرام کے لئے مسلم ملکوں کی مالی اعانت حاصل کرنا تھا۔ دمشق میں اپنے دورے کے اس سلسلہ کے اختتام پر انہوں نے شام کے صدر حافظ الاسد سے کہا تھا کہ ان کا یہ دورہ نشاة ثانیہ کے سفر کا آغاز تھا اورپاکستان کی مہارت اور مسلم ممالک کی دولت سے عالم اسلام جوہری قوت حاصل کرسکتا ہے اس دورہ کے فوراً بعد انہوں نے 1973ء میں پاکستان کے جوہری اسلحہ کی صلاحیت حاصل کرنے کے پروگرام کاباقاعدہ آغاز کیا اور اس سلسلہ میں انہوں نے جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کو تبدیل کیا اور اعلیٰ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام کو برطرف کرکے ہالینڈ سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان بلا بھیجا اور دوسری جانب پاکستان کے جوہری پروگرام کے لئے انہوں نے فرانسیسی حکومت کو جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی تجدید کے لئے آمادہ کیا۔

بھٹو جوہری پروگرام میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اسے امریکہ نے قطعی پسند نہیں کیا جبکہ1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس بھی کامیابی سے منعقد ہوئی جس میں اسلامی ممالک نے ذوالفقار علی بھٹو کی باتوں سے اتفاق کیا تو ایسے میں امریکہ نے1976ء میں اس وقت کے اپنے وزیر خارجہ مینری کیسنجر کو پاکستان بھیجا جس نے لاہور کے شاہی قلعے میں ایک تقریب کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کو کھلم کھلا دھمکی دی تھی کہ اگر بھٹو نے ایٹمی ری پراسسنگ اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے منصوبہ پر کام جاری رکھا تو انہیں عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس دھمکی کو کوئی اہمیت نہ دی اور ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا کیونکہ ان کے نزدیک ملک اور قوم کی سلامتی زیادہ اہم تھی جو بھارتی ایٹمی پروگرام کی وجہ سے خطرے میں پڑتی جارہی تھی کیونکہ پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بھارت اور دیگر طاقتیں مغربی پاکستان کو بھی ختم کرنے کے درپے تھیں۔

آخرکار بھٹو کو1979ء میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا مگر بھٹو کے ایٹمی صلاحیت کے حصول کے پروگرام کا لگایا ہوا پودا مزید تناور ہوتا چلا گیا اس پر تحقیقی کام جاری رہا اور پاکستان کے سائنس دانوں نے کہوٹہ کی تجربہ گاہ میں جہاں پر1976ء میں ہی یورنیم کی افزدگی کا کام شروع ہو چکاتھا پہلی بار اس میں1978ء میں کامیابی حاصل کرلی اور 1982ء تک وہ نوے فی صد افزودگی کے قابل ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کے جوہری سائنس دانوں نے1984ء میں ہی جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی تھی اور انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے کہا تھا کہ وہ کھلم کھلا پاکستان کی طرف سے جوہری بم کی تیاری کے عزم کا اعلان کریں لیکن ان کے امریکی نواز وزیر خارجہ اور دوسرے وزیروں نے سخت مخالفت کی آخر کار11مئی1998 میں جب ہندوستان نے جوہری تجربات کئے تو پاکستان کے لئے کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ بھی جوہری تجربات کرے اور یوں پاکستان جوہری طاقتوں کی صفوں شامل ہو گیا۔

ایٹمی کامیاب دھماکوں نے 28 مئی 1998ء کے دن پاکستان کی تاریخ میں تحفظ نظریہ پاکستان اور تکمیل دفاع پاکستان کی تاریخ کا دن بنادیا جیسے یوم تکبیر سے منسوب کر دیا گیا۔ پاکستان کے مایہ ناز عالمی شہرت یافتہ سائنسدان، پاکستان کے ایٹمی ٹیکنالوجی کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی جان پر کھیل کر بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف وطن عزیز کو ناقابل تسخیر بنادیا بلکہ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے قوم اور مسلح افواج کے پشت مورال کو بلند یوںپرلے گئے۔ امریکہ کو پاکستان ایک ایٹمی قوت کے طور پر ناگوار گزرا اور اس نے ایٹم بم کے موجد ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے انتقام لینے کے لئے حکمرانوں کا ہی سہارا لیا اورصدر جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا کر اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر دنیا میں ایٹمی پھیلاؤ کے نیٹ ورک کا الزام لگاکر ایک اعترافی بیان کے ذریعے ان کو گھر میں نظر بند کردیا تھا۔

امریکہ نے اسرائیل اور مصرکے ایٹمی ری ایکٹر کو میزائل کے حملے سے تباہ کردیا صرف عالم اسلام میں پاکستان ہی تھا جو افغان روس جنگ کے دوران زیر زمین دھماکے کے بغیر لیبارٹری میں تھرمو نیوکلیئر اور ہائیڈرونیو کلیئر تجربات کے ذریعے ایٹمی ہتھیارساز ی کا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا حالانکہ امریکہ نے اس جنگ کے دوران ایٹمی تجربات روکنے کی بہت کوشش کی تھی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ90ء کی دہائی میں اسرائیل ، جنوبی افریقہ، ارجنٹائن، جنوبی کوریا ، شمالی کوریا اور تائیوان کس طرح غیر اعلانیہ ایٹمی قوت بن گئے؟ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم شمعون پیریز نے اپنے انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ فرانس کے پاس اس وقت 200ایٹم بم اور جریکو میزائل جن کی رینج200کلو میٹر ہے اور یہ ایٹمی ہتھیار جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ نیو کلیئر امتیاز عالم اسلام کے ساتھ ہی کیوں؟کیا امریکہ کو اپنی فوجی سلامتی دوسرے ممالک سے زیادہ عزیز ہے حالانکہ امریکہ نے ا نٹی بلاسٹک میزائل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الاسکا میں نیشنل میزائل ڈیفنس ٹیسٹ سافٹ کے ذریعے روس اور چین کے ایٹمی میزائلوں کو امریکہ کی زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کردیا جائے۔صدر کلنٹن کے دور میں 8سالوں میں امریکہ بھارت کو85ء میں ایٹمی ٹیکنالوجی اور ایٹمی مواد منتقل کرتا رہا۔ جو اس وقت 500کلو گرام ایٹمی مواد تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھاجو200ایٹم بم بنانے کے لئے کافی تھا۔ بین الاقوامی ضابطہ کے مطابق کوئی ملک 20سے زیادہ ایٹم بم نہیں بنا سکتا۔ 1998میں ہی روس نے بھی بھارت کو بلاسٹک میزائل ساگر یگا(SAGRIQA) کا نام دیا گیا جن کی تیاری میں بھارت کی بھرپور مدد ملی تھی جس کی پانی میں200کلو میٹر رینج ہے اور ایٹمی ہتھیار کو اپنے ہدف تک لے جاسکتا ہے۔

اسی طرح اسرائیل نے بھی1998ء میں سی ٹی بی ٹی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہائیڈروجن بم کا دھماکہ کیا تھا جسے مصر، پاکستان اور بھارت کی ریکٹر سکیل پر6.2 کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے تھے اب سوال یہ ہے کہ امریکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر ایٹمی پھیلاؤ کے نیٹ ورک پر الزام کی بجائے روس کے صدر یلسن پر کیوں نہیں لگاتا۔ امریکہ اور سابق صدر مشرف کا ڈاکٹر قدیر پر ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا الزام سراسر غلط تھا دراصل امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

پاکستانی قوم نے دباؤ پر لئے جانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اعترافی بیان کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ہیرو قرار دیا۔اب ایٹمی دھماکے کرنے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ایک بار پھر حکومت آئی ہے ۔وزیراعظم کو پاکستان کے دفاع کا عزم کرتے ہوئے پاکستان کے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے منہ توڑ جواب دینا ہوگااور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے پاکستان کو عالم اسلام کے ماتھے کا جھومر بنایا اور پاکستان و اسلام کے دفاع کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا وزیر اعظم صاحب کو چاہئے کہ ممنون حسین کی بجائے عوامی خواہشات کے مطابق انہیں صدر پاکستان بناکر دشمنان پاکستان کو واضح پیغام دیں کہ آج بھی ہم ایک ہیں اور تکبیر کا نعرے و جذبے کے ساتھ دفاع پاکستان کے لئے متحد و بیدار ہیں۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472