تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری ایک آدمی اپنے پرانے دوست کے ساتھ خوشگوار ماحول میں بیٹھاہوا تھا۔ اس نے اپنے دوست سے کہا کہ ہماری دوستی کو ایک طویل مدت بیت چکی کیوں نہ ہم اس کو مزید مضبوط و گہرا بنائیں تو اس نے کہا میں چاہتاہوںکہ آپ کی بیٹی کے ساتھ میرے بیٹے کی شادی ہوجائے۔اس پر دوسرا دوست خوش ہوا اور اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں اس طرح تو ہم ایک دوسرے کے مزید قریب آجائیں گے ۔پھر اس نے پوچھا آپ کا بیٹاکہاں ہوتا ہے؟پہلے دوست نے جواب دیا کہ وہ کینڈاا میں پانچ سال سے تعلیم کے سلسلہ میں مقیم ہے۔
تو اس نے پوچھا کب واپس آئے گا تو لڑکے کے باپ نے جواب جواب دیا معلوم نہیں۔ اس پر لڑکی کا باپ اللہ برکت دے کہتے ہوئے مجلس سے اٹھا اور گھر آیا توخوشی کے ساتھ اعلان کیا کہ میں نے بیٹی کا رشتہ طے کر دیا ہے اپنے دوست کے بیٹے کے ساتھ اس پر گھر میں بے حد خوشی منائی جانے لگی اسی اثنا میں لڑکی گھر میں داخل ہوئی ،وہ گھر میں ماحول مسرت دیکھ کر متعجب ہوئی اور اس نے سبب پوچھا تو اس کی ماں نے بتایا کہ تمہاری وجہ سے یہ خوشی ہو رہی ہے ، تیرا رشتہ طے کردیا گیا ہے ۔اس پر حیرت و غصہ کے ساتھ لڑکی بلند آواز کے سے چیخی!
لڑکی نے بہت کوشش کی کہ وہ یہ رشتہ مسترد کردے مگر وہ کامیاب نہ ہوسکی۔معاشرے میں زمانہ جاہلیت کی قبیح رسمیں موروثی طور پر چل رہی ہیں۔لڑکے کے باپ نے لڑکے کو پیغام بھیجا کہ ہم نے تیرا رشتہ دوست کی بیٹی سے طے کیا ہے تو جواب میں بیٹے نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لڑکی کو نہ میں جانتاہوں اور نہ ہی میں نے دیکھا اسے اور آپ نے میرا رشتہ طے کردیا !!تو اس پر باپ نے کہا کہ والد کی نافرمانی نہ کرو میں حکم دیتاہوں یہ رشتہ ہوکر رہے گا۔اس پر لڑکے نے جواب دیا کہ میں نہیں آئوں گا بلکہ یہیں کینڈامیں ہی رہوں گا ۔دوسری طرف لڑکی بے اطمینانی کے ساتھ دوامور میں سے کسی ایک کے ہونے کا انتظار کررہی تھی یا تو اس کا منگیتر آجائے اور اس سے کراہیت کے ساتھ شادی کرلے یا پھر اس کے مرنے کی خبر آجائے جس سے وہ سوکھ کا سانس لے سکے۔
ALLAH
ہم یہ پوچھتے ہیں کیا یہ رویہ مسلمانوں کے اخلاق میں سے ہے؟اسلام نے شادی سے قبل لڑکی و لڑکے کو دیکھنے کی اجازت کیوں دی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کو اپنی رفیقہ حیات کو اختیار کرنے سے پہلے دیکھنے کا حکم دیا کیوں کہ انہوں نے ایک طویل عمر رفاقت اختیارکرنی ہے۔ہم کیا کررہے ہیں اور کیسے کررہے ہیں جبکہ اسلام نے عورت کو جو آزادی دی اس کا احترام کہاں گیا؟بہت سے غبی اذہان حق سے روگردانی اختیار کرتے ہیں اور اپنی عادات و تقالید کو دین حنیف سے مقدم رکھتے ہیںگویا کہ دین حقیقی کسی اور قوم کے لیے آیا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ایک آدمی جو کبھی تعلیمی ادارے میں داخل نہیں ہوا اور وہ بنک میں معمولی درجے کی ملازمت کرتاہے(ہم کسی بھی صورت کام کا مذاق نہیں اڑاتے اور نہ تحقیر کرتے ہیں)وہ اپنی کزن سے شادی کرنے کی خواہش رکھتاتھاجو کہ تعلیمی ادارے میں معلمہ کے منصب پر فائز تھی،لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کرنے پر راضی ہوجاتاہے باوجود اس کے کہ ان دونوں کا جوڑ نہیں بنتاکیوں کہ وہ آدمی علم میں لڑکی سے کم درجے میں ہے…احناف شادی میں برابری کو مدنظر رکھتے ہیں تاکہ لڑکی اپنے سے کم درجے علمی و مالی اعتبار سے شوہر کا استہزاء و تمسخر کے ساتھ پیش نہ آئے۔اگر ایسا ہوجائے تو یہ ہوگا کہ بچے والد کو جاہل اور والدہ کو تعلیم یافتہ پائیں گے جب کہ ضروری ہے کہ والد صاحب علم ہوتاکہ بچوں کی تربیت و نشونما پر اچھا اثر پڑے……اس جبری شادی سے کیا فائدہ ہوگا جب کہ لڑکی سے اس کا شوہر کم درجے کا ہو ؟؟؟
یہ جبر و زبردستی اور دین کی تعلیمات سے پہلو تہی بہت قبیح عمل ہے۔دین متین سمجھانے والے کہاں چلے گے خاص طور پر علمائے احناف جو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر جبرا کسی کی شادی کی جائے تو ایسا ہے گویا کہ ہوئی ہی نہیں کیوں کہ یہ صرف شادی نہیں بلکہ اس پر بہت سے دیگر امور بھی مرتب ہوتے ہیں۔کاش کہ ایسا نہ ہوتا کہ یہ لوگ دین کے ترجمان ہوتے کیوں کہ ان کے سبب اسلام بدنام ہورہاہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن ان کا دین حقیقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔شرح طلاق کی کثرت و زیادتی کا سبب بھی یہی ہے ،ان لوگوں کا فہم مبنی پر خطاء ہے یعنی لڑکی کی زبردستی شادی یا اس کے علم کے بغیر اس کا رشتہ طے کردینا…ہم نہیں جانتے کہ لوگ کب تک دین کی حقیقی تفہیم اور اس کی روح سلیم سے جاہل رہیں گے!!