اسلام میں مزاح کا تصور

Islam

Islam

تحریر : عبد الوارث ساجد
اسلام زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی راہنمائی کرتا ہے، معاشرتی زندگی کے وہ تمام جو معاشرے کے خوشگوار ماحول کے لیے موزوں ہیں اسلام ان کی تعلیمات دیتا ہے۔ خوش طبعی اور مزاح انسانی زندگی کے جزو ہیں، خوش طبعی اور مزاح انسان کی صحت کے لیے بھی ضروری ہے اور اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ مزاح میں فحش گوئی اور دوسرے انسان کی تحقیر نہ ہو۔ یہ نفس کے لیے راحت کا سامان ہے اور ہر انسانی جسم کبھی کبھار ایسی خواہش رکھتا ہے۔ یہ ایک فطری سبب ہے اور اسلام آسمان دین ہونے کے ناطے فطرت کے تمام پہلوئوں پر انسان کی راہنمائی کرتا ہے، غم خوشی انسانی زندگی کا حصہ ہے اور ان تغیر اس ذات کا بابرکت ہاتھ میں جس نے انسان کو بنایا اور انسان کے لیے اسلام کو بطور دین چنا۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اور وہی (اللہ) ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔ ” (سورة : نجم ٤٣) اس آیت کی تفسیر کے ضمن امام ابن کثیر رکھتے ہیں : ”کہ بندوں میں ہنسنے، رونے کا مادہ اور ان کے اسباب بھی اسی نے پیدا کیے ہیں۔ ” (تفسیر ابن کثیر ٥/٢٥٤)۔

یعنی خوشی اور غمی دونوں کے اسباب اس کی طرف سے ہیں، اچھی اور بری قسمت کا رشتہ اس کے ہاتھ میں ہے، کسی کو اگر راحت و مسرت نصیب ہوئی ہے تو اسی کے دینے سے ہوئی ہے اور کسی کو مصائب و آلام سے سابقہ پیش آیا ہے تو اسی کی مشیت سے پیش آیا ہے کوئی دوسری ہستی اس کائنات میں ایسی نہیں جو قسمتوں کے بنانے اور بگاڑنے میں کسی قسم کا دخل رکھتی ہو۔ (تفہیم القرآن از مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی: ٥/٢٢٠) امام غزالی h کا کہنا ہے کہ ”مزاح کبھی کبھار ہو تو یہ سنت ہے لیکن اس کو عادت ہی بنا لینا یہ ٹھیک نہیں۔ ” (احیاء علوم الدین) وجہ یہی ہے زیادہ ہنسی دل کو مردہ کر دیتی اور انسان کی شخصیت دوسروں کی نظر سے اپنا وقار کھو دیتی ہے اس لیے کہا گیا ہے کہ زیادہ مزاح سے بھی گریز کرنا چاہیے، مزاح وہی اچھا ہوتا ہے جو ایک حد تک ہو۔ اسی طرح یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مزاح میں دوسرے انسان کی دل شکنی نہ ہو اور نہ قہقہہ ہاں تبسم اور مسکراہٹ سنت بھی اور راحت بھی۔

سیدنا انس t بیان کرتے ہیں بلا شبہ رسول اللہ e ہم سے گھل مل کر رہتے، یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے کہتے : ”ابو عمیر! بلبل کو کیا ہوا؟ ابو عمیر کی ایک بلبل تھی جس کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا اور وہ مر گئی تھی۔ (بخاری و مسلم) رسول اکرم e نے ابو عمیر t سے اس لیے کہا کہ جب ابو عمیر کی بلبل مر گئی تو اس کے مرنے پر وہ غمزدہ ہوگیا تھا تو آپ e نے اس کا غم دور کرنے کی خاطر اس سے خوش طبعی کرتے ہوئے ایسا کہا تاکہ اس کا غم دور ہو جائے، معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کے ساتھ اس قسم کی خوش طبعی کرنا درست ہے۔ (تنقیح الرواہ : ٣/٢)۔

Hazrat Mohammad PBUH

Hazrat Mohammad PBUH

سیدنا انس t بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی انسان کا نام ظاہر بن حرام تھا، وہ شخص جنگل سے نبی e کے لیے تحائف لاتا تھا اور جب وہ شخص (واپس) جانے کا ارادہ کرتا تو رسول اللہ e اسے (شہری سامان ضرورت کے مطابق) دیا کرتے تھے، رسول اللہ e نے فرمایا ، اس میں کچھ شک نہیں کہ ”ظاہر” جنگل میںہمارا کارندہ ہے اور ہم شہر میں اس کے کارندے ہیں، نبی e اس سے محبت فرماتے تھے، اگرچہ وہ بد صورت تھا، نبی eایک روز تشریف لائے جبکہ وہ اپنا سامان بیچ رہا تھا تو آپ e نے اس کو پیچھے سے اپنے بازوئوں کے حصار میں لے لیا مگر اس نے نبی e کو نہیں دیکھا تھا، چنانچہ اس نے پکارا، مجھے چھوڑو! کون ہے؟ اس نے آپ e کی طرف مڑ کر دیکھا تو نبی e کو پہچان لیا چنانچہ وہ پورا زور لگانے لگا کہ اپنی کمر کو نبی e کے سینے کے ساتھ ملائے رکھے، نبی e پکارنے لگے: ”اس غلام کو کون خریدے گا؟” اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول e، اللہ کی قسم! اگر مجھے آپ مجھے بیچیں گے تو بہت کم قیمت ملے گی، نبی eنے جواب دیا، البتہ اللہ کے ہاں تو بے قیمت نہیں ہے۔ ” (شرح السنہ)۔

عوف بن مالک الشجعی بیان کرتے ہیں کہ میں جنگ تبوک میں رسول اللہ e کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ e چمڑے کے خیمے میں تشریف فرما تھے، میں نے سلام کیا، آپ e نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : ”اندر آجائو۔” میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! کیا میں سارے کا سارا آجائوں؟ آپ e نے فرمایا: ”تمام کا تمام۔” چنانچہ میں اندر آگیا، عثمان بن ابی العاتکہ نے بیان کیا کہ اس شخص نے خیمے کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے کہا کہ میں سارے کا سارا داخل ہو جائوں۔ (ابودائود) یہ چند وہ احادیث رسول e جو صاحب مشکوٰة المصابیح نے اپنے کتاب کے باب المزاح میں نقل کی ہیں، علاوہ ازیں اس سلسلے میں پیارے نبی e سے بہت سے واقعات نقل ہیں۔ ایک مرتبہ نبی e نے ایک لکڑی سیدہ عائشہ r کی طرف پھینکی وہ آپ r کے پائوں پر لگی، سیدہ عائشہ r نے چوٹ محسوس کی اور زیر لب مسکراتے ہوئے کہا کہ : ”اللہ کے رسول e ! کیا بدلہ لینا جائز ہے۔” آپ e جان گئے کہ بدلہ لینے کے موڈ میں ہے۔ آپ e نے فرمایا جائز تو ہے مگر اتفاقی حادثہ پر نہیں، اس کے بعد سیدنا محمدرسول اللہe اور ام المومنین کافی دیر تک مسکراتے رہے۔

شمائل ترمذی میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپ e کے پاس آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ e میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے جنت میں داخل کرے، نبی کریمeنے سوال سن کر فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت ہر گز جنت میں نہیں جائے گی، یہ سن کر بوڑھی عورت سخت ناراض ہوگئیں، جب چلنے لگیں تو نبی کریمe نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایمان (بوڑھی، بوڑھا) والوں کو جوان بنا کر جنت میں داخل کرے گا اس پر خاتون خوش ہوگئیں تو آپ e بھی مسکرا دیے۔ حدیث میں آتا ہے ، نسائی تحفة الاشراف المواہب الدینہ میں منقول ہے : سیدہ عائشہ r فرماتی ہیں کہ ایک روز میں سودہ بنت زمعہ اور رسولِ اقدس e ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، میں نے کھانے کے لیے حریرہ تیار کیا ہوا تھا، سودہ سے کہا تم بھی کھائو، اس نے کھانے سے انکار کر دیا، میں نے ازراہِ مذاق کہا کھائو گی یا تمھارے منہ پر مل دوں، وہ خاموش بیٹھی رہی اور کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا، رسولِ اقدس e یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے، میں نے پیالے سے تھوڑا سا حریرہ لیا اور اس کے منہ پر مل دیا، رسول اقدس e یہ دیکھ کر مسکرائے اور سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تم بھی اس کے چہرے پر مل حریرہ مل کر اپنا بدلہ لو اس نے بھی سرتاج کا حکم مان کر حریرہ میرے چہرے پر ملا۔ رسولِ اقدس e ہنسے اور فرمایا یہ رہا نہ بدلہ۔

Hazrat Ayesha

Hazrat Ayesha

ایک مرتبہ سیدہ عائشہ r حضور e سے ناراض ہوکر ذرا اونچی آواز میں بات کرنے لگیں، اتفاق سے سیدنا ابو بکر tآگئے انھوں نے یہ گستاخی دیکھی تو اس قدر برہم ہوئے کہ بیٹی کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا آنحضرتe نے سیدنا ابو بکر t کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو اٹھ کر درمیان میں آگئے اور سیدہ عائشہ r کو بچا لیا سیدنا ابو بکر t طیش سے بھرے ہوئے واپس لوٹ گئے، حضور e نے مسکرا کر چھیڑنے کی غرض سے فرمایا : ”کیوں میں نے تم کو کیسا بچایا۔” تو سیدہ عائشہ r بھی زیر لب مسکرا کر شرمندہ ہوگئیں۔ (ابودائود)صحابہ کرام y بھی آپس میں مزاح فرمایا کرتے تھے اور اپنی مجلس میں خوش طبعی کا ماحول بنا لیتے تھے۔ سیدنا اسماء بنت عمیس r سیدنا جعفر طیار t کی بیوی تھیں، سیدنا جعفر t کی شہادت کے بعد آپ r سیدنا ابو بکر صدیقt کے نکاح میں آئیں، ان کی وفات کے بعد آپ t سیدنا علی t کی زوجہ بنیں، سیدنا اسمائr کے دونوں صاحبزادوں محمد بن جعفر tاور محمد بن ابو بکر t نے سیدنا علی tکے ہاں پرورش پائی، ایک دن دونوں صاحبزادوں نے ایک دوسرے سے باہم فخر سے کہا کہ ہم تم سے بہتر ہیں اس لیے کہ ہمارے باپ تمھارے باپ سے بہتر تھے، سیدنا علی t نے سیدہ اسمائr سے کہا کہ ان کے جھگڑے کا فیصلہ کرو، سیدہ اسماء r بولیں کہ تمام نوجوانوں پر سیدنا جعفر r کو اور تمام بوڑھوں پر سیدنا ابو بکر t کو فضیلت حاصل ہے اس پر سیدنا علی t بولے پھر ہمارے لیے کیا رہا؟ (اصابہ:٨/٩)۔

حبان بن منقدt انصاری صحابی تھے، وہ پیشہ تجارت سے منسلک تھے چنانچہ ایک دفعہ تجارت میں ان کے ساتھ دھوکہ ہوگیا، آپ t نبی e کے پاس آئے اور سارا ماجرا سنایا کہ ان کے ساتھ تجارت میں دھوکا ہوگیا ہے، نبی پاک e نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ جب بھی تم تجارت کرو تو سودا کرنے سے پہلے کہہ دو کہ دھوکا نہیں چلے گا۔ (بخاری) سیدہ ام سلمہ r فرماتی ہیں سیدنا ابو بکر t تجارت کی غرض سے بصری (ملک شام کا ایک شہر) تشریف لے گئے ان کے ساتھ سیدنا نعیمان t اور سیدنا سویبط r بن حرملہ بدری صحابی بھی تھے، سیدنا سویبط t کھانے کے سامان کے ذمہ دار تھے، سیدنا نعیمان t نے ان سے کہا مجھے کچھ کھانا کھلا دو، سیدنا سویبط t نے کہا سیدنا ابو بکر t گئے ہوئے ہیں جب وہ آجائیں گے تو کھلا دوں گا، سیدنا نعیمان t کی طبیعت میں ہنسی اور مزاح بہت زیادہ تھا، وہاں قریب میں کچھ لوگ اپنے جانور لے کر آئے ہوئے تھے، سیدنا نعیمان t نے ان سے جا کر کہا میرا ایک خوب چست و طاقتور عربی غلام ہے تم لوگ اسے خرید لو ان لوگوں نے کہا بہت اچھا سیدنا نعیمان t نے کہا بس اتنی بات ہے کہ وہ ذرا باتونی ہے اور شاید وہ یہ بھی کہے کہ میں آزاد ہوں اگر تم اس کے کہنے کی وجہ سے اسے چھوڑ دو گے تو پھر رہنے دو یہ سودا مت کرو اور میرے غلام کو نہ بگاڑو۔

انھوں نے کہا نہیں ہم تو اسے خریدیں گے اور اسے نہیں چھوڑیں گے چنانچہ ان لوگوں نے دس جوان اونٹنیوں کے بدلے میں انھیں خرید لیا، سیدنا نعیمان t دس اونٹنیاں ہانکتے ہوئے آئے اور ان لوگوں کو بھی ساتھ لائے اور آکر ان لوگوں سے کہا یہ رہا تمھارا وہ غلام اسے لے لو جب یہ لوگ سیدنا سویبط t کو پکڑنے لگے تو سیدنا سویبط t نے کہا سیدنا نعیمان tغلط کہہ رہے ہیں میں تو آزاد آدمی ہوں ان لوگوں نے کہا انھوں نے تمھاری یہ بات پہلے ہی بتا دی تھی، چنانچہ وہ لوگ سیدنا سویبط t کے گلے میں رسی ڈال کر لے گئے، اس کے بعد سیدنا ابو بکر t واپس آئے تو انھیں اس قصہ کا پتا چلا تو وہ اور ان کے ساتھی ان خریدنے والوں کے پاس گئے اور ساری بات بتا کر ان کی اونٹنیاں انھیں واپس کیں اور سیدنا سویبط t کو واپس لے کر آئے، پھر مدینہ واپس آکر ان حضرات نے حضور e کو یہ سارا واقعہ سنیا تو حضور e اور آپ کے صحابہ y اس قصہ کو یاد کر کے سال بھر ہنستے رہے (ان حضرات کے دل بالکل صاف ستھرے تھے اور سویبط tکو معلوم تھا کہ سیدنا نعیمان t کی طبیعت میں ہنسی مذاق بہت ہے اس لیے انھوں نے کچھ برا نہ منایا۔ (حیاة الصحابہ : ٢/٥٧٤، کنز العمال : ج٣/٨٨١۔ حدیث ٩٠٢٢)۔

ALLAH

ALLAH

نبی اکرم e اور صحابہy کی طرح تابعین اور سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے اور ایسے بہت سے واقعات ہیں، مثلاً : ایک شخص نے امام ابو محمد a سے کہا کہ میں نصف درہم میں ایک گدھا کرایہ کر کے تمھارے پاس آیا ہوں تاکہ فلاں فلاں حدیث کے بارے میں تم سے کچھ سوال کروں۔(یعنی اس نے نصف درہم کو علم حدیث پر ترجیح دی لہٰذا) امام ابو محمد a نے فرمایا کہ بقیہ نصف درہم پر پھر گدھا کرایہ پر لے کر واپس لوٹ جائو۔ (کتاب الاذکیاء از امام ابن جوزی a) غالب القطان کہتے ہیں کہ میں ایک دن ابن سیرین کے پاس گیا اور پوچھا کہ ہشام کی سوئی ہے وہ بولے : ”تمھیں نہیں معلوم ان کا تو گزشتہ رات انتقال ہوگیا میں نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اس پر ابن سیرین ہنس دیے۔ ” غالب القطان کہتے ہیں تب مجھے معلوم ہوا انھوں نے وفات سے مراد رات کو سونا لیا ہے۔ (شرح السنہ : ٦/٦٥٠) آپ دیکھئے ابن سیرین جہاں یوں مزاح کرنے والے تھے، وہاں ان کے متعلق یہ بھی کہا گیا کہ وہ رات کو عبادت میں بہت روتے تھے، لیکن دن کو دوسرے کی راحت کے لیے مزاح کر لیا کرتے تھے۔ بعض لوگ بڑی گھٹی گھٹی زندگی گزارتے ہیں، ذرا سا مزاح بھی ان کی زندگی میں اشتعال پیدا کر دیتا ہے، کچھ لوگ ایسے سنجیدہ رہتے ہیں کہ ان کے ساتھ سالوں رہنے والے بھی کبھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھ پاتے۔

ایسے لوگ سنجیدہ طبع ہوتے ہیں، لہٰذا مزاح بھی یہ خیال پیش نظر رکھنا چاہیے کہ وہ جب آدمی سے مزاح کر رہے ہیں وہ کیسی طبیعت کا مالک ہے کبھی کبھار تو ایسے حالات میں مزاح سے لڑائی تک نوبت جا پہنچتی ہے اس حالات میں مزاح کی ممانعت ہے اور بہت سے ائمہ نے اسی وجہ سے مزاح کی مذمت میں اقوال ہیں : سعید بن العاص aنے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ : ”شریف آدمی سے مزاح نہ کر کہ وہ تجھ سے دشمنی کر لے گا اور کمینے سے مذاق نہ کر کہ وہ تجھ پر جرأت کرنے لگے گا۔ ” سیدنا عمر بن عبدالعزیزa فرماتے ہیں: ”اللہ سے ڈرو اور مذاق سے کوسوں دور رہو کہ وہ کینہ کا باعث ہے اور اس کا انجام برا ہے۔ ” سیدنا عمر t نے فرمایا : ”تم کو معلوم ہے مزاح کا نام مزاح کیوں ہے لوگوں نے عرض کیا نہیں، فرمایا مزاح مشتق ہے زیح سے جس کے معنی دوری کے ہیں اس سے معلوم ہوا مزاح حق سے دور کرتا ہے اور ہر شے کا ایک بیج ہے اور عداوت کا بیج مزاح ہے۔ ” اور بعض اکابر کا قول ہے کہ مزاح سے عقل سلب ہو جاتی ہے دوست الگ ہو جاتے ہیں امام غزالی a ”احیاء العلوم” میں ان اقوال کو نقل فرما کر تحریر فرماتے ہیں :۔

اب معلوم کرنا چاہیے کہ اگر شاذ و نادر کوئی ایسا شخص ہو کہ مزاح میں حق کے سوا کچھ نہ کہے کسی کو ایذا نہ دے اور نہ افراط کرے بلکہ کبھی کبھی کیا کرے، جیسا کہ آنحضرتe اور ان کے صحابہ y کا دستور تھا تو اس طرح کے مزاح میں کچھ مضائقہ نہیں۔ (مذاق العارفین : ٣/١٨١) ترمذی شریف میں سیدنا عبداللہ بن عباس t سے ایک روایت ہے ، رسول اللہ e نے فرمایا : ”تم اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو اور نہ اس سے مذاق کرو اور نہ ایسا وعدہ کرو جس کو پورا نہ کر سکو۔” کچھ لوگ یہ حدیث بیان کر کے کہتے ہیں کہ انسان کے لیے ہنسی مزاح ٹھیک نہیں۔ اس سوال کا جواب امام نووی a نے یوں دیا ہے کہ وہ مذاق جو حد سے بڑھا ہو اور وہ انسان جو ہر وقت مذاق کو اپنی عادت ہی ٹھہرا لے، زندگی کے مقصد سے عاری ہو جائے اور یہ مذاق اس کے دل کی سختی کا سبب ہو تو یہ مذاق ٹھیک نہیں لیکن اس کے سوا جو مزاح ہو بالخصوص جس میں یہ نیت ہو کہ وہ اپنے دوسرے بھائی کو خوش کرنا چاہتا ہو تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ سنت رسول e ہے۔ (دیکھئے مرقاة : ٩/١٧١) سیدنا عبداللہ ابن حارث t کی روایت ”ما رایت احد اکثر مزاحاً من رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ” میں نے رسول کریم e سے زیادہ خوش طبعی کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔” آپ کا مزاح بھی حقائق پر مبنی ہوتا تھا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ t کی روایت میں ہے کہ صحابہ y نے دریافت کیا یا رسول اللہ! آپ ہم سے مزاح بھی فرما لیتے ہیں؟ آپ e نے فرمایا : ”انی لااقوال الاحقا” ہاں مگر میں غلط بات نہیں کہتا ہوں۔” (مشکوٰة : ٤١٦، شمائل ، ترمذی : ص١٦) دل کو آزاد بھی چھوڑ دیا کرو، خوش کن نکتے بھی سوچا کرو، کیوں کہ جسم کی طرح دل بھی تھک جاتا ہے۔ (حوالہ بالا، آداب زندگی ص ٢٤٤، المرتضیٰ : ص ٢٨٨) یوں یہی معلوم ہوتا ہے کہ مزاح انسانی مزاج ہے، اسلام اس کی اجازت دیتاہے، لیکن شرط یہی ہے کہ ظرافت میں اعتدال و میانہ روی ہونی چاہیے۔

Abdul Waris Sajid

Abdul Waris Sajid

تحریر : عبد الوارث ساجد