تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر مولانا ظفر علی خان کا ایک شعر جسے آفاقی اور لافانی شہرت نصیب ہوئی آج نا جانے کیوں میرے ذہن کے دروازے پر دستک دیئے چلا جا رہا ہے کہ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد اسکی گونج اپنے ذہن نارسا میں محسوس کرتے ہوئے میں سوچ کی وادیوں میں گم ہوتا چلا گیا کیونکہ اس شعر میں مولانا نے کہا ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد جس نے مجھے سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کی تحریک دی وہ یہ کہ کربلا تو ایک ہی تھی جو اکسٹھ ہجری میں وقوع پذیر ہوئی جس میں نواسئہ رسول ،جگر گوشئہ بتول اپنے خاندان اور رفقاء کے ساتھ یزیدی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے جس شہادت کی داستان تا ابد جاری و ساری رہے گی اگر تو اسی کربلا کی بات کی ہے مولانا نے اپنے شعر میں تو شعر کچھ اس طرح ہونا چاہیئے تھا کہ
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوگیا بس کربلا کہ بعد
مگر مولانا نے ایسا نہیں لکھا بلکہ یہ کہا ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعدسوچتے سوچتے آج میرے ذہن میں اس شعر کی وجہ تھوڑی تھوڑی سمجھ میں آرہی ہے جو میں قارئین کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ لوگ میری راہنمائی کر سکیں کہ میں نے ٹھیک سمجھا یا غلط اس شعر کے مرکز سوچ اور معانی کو ۔ تو صاحبان میں جس نتیجے پہ پہنچا ہوں وہ کچھ یوں ہے کہ کربلا تو ابتدائیہ تھا کسی فاسق فاجر اور ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا ، کربلا تو آغاز تھا فتح و شکست کو صیح سمت دینے کا ۔اکسٹھ ہجری والی کربلا کا تسلسل ابھی جاری ہے جو تا دم قیامت جاری رہے گا کیونکہ کربلا عددی طاقت کا نہیں بلکہ عزمی طاقت کا نام ہے کربلا وہ معرکہ ہے جس نے فتح و شکست کے قوانین مرتب کئے جس کے بانی نواسئہ رسول ۖ ہیں ۔ معرکہ کربلا سے پہلے تک فتح وشکست کچھ ایسے تھی کہ جو مار دے اپنے دشمن کو وہ فاتح اور جو مارا جائے وہ مفتوح مگر امام حسین نے فتح وشکست کے نئے اصول وضع کئے یعنی جو اپنے مقصد میں کامیاب وہ فاتح اور جو اپنے مقصد میں ناکام ہوا وہ مفتوح یز ید لعین اور اس کے لشکر کا مقصد تھا کہ حسین اس بیعت کریں اور اسے خلیفہ مانیں کیا اسے اپنے مقصد میں کامیابی نصیب ہوئی ؟ اور امام حسین کا مقصد یہی تھا کہ ایک ظالم ،فاسق و فاجر کی بیعت نہیں کرنی اور اپنے نانا امام المرسلین رحمت الالعالمین ۖ کے دین برحق پر کسی ظالم کی اجارہ داری قبول نہیں کرنی چاہے اس کے بدلے میں کیسی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے سیدالشہدا کی لازوال قربانیوں کے بدلے میں آن واحد میں یزید نام کو ہمیشہ کے لئے ایک ایک گالی بنا دیا یزید ظلم کر کے بھی مردود ٹھہرا اور حسینیت تا قیامت زندہ و پائیندہ ٹھہری تو قارئین بات ہو رہی تھی اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد پر پہلی کربلا میں خانوادئہ رسول ۖنے شہدتیں دے کر قید و بند کی صعوبتیں اٹھا کر اسلام کو زندہ کیا پھر اسکے بعد میری نظر اک اور کربلا پر پڑتی ہے جب یزیدی لشکر نے مدینہ پرچڑھائی کی بہت بڑی قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا مسجد نبوی ۖ میں گھوڑے تک باندھے تا کہ یزید کی دھاک اصحابہ رسول اور انکی اولادوں پر بیٹھ سکے یہاں بھی یزیدی لشکر اپنے مقصد میں کامیاب نا ہو سکا اور لعین ہی ٹھہرا کیونکہ ان مظالم کے بعد مسلمانوں میں یزید کے خلاف ایک بھرپور نفرت جاگی اور بالآخر ایک نئے جذبہ ایمانی کے ساتھ مختار ثقفی کی معیت میں مسلمانوں نے یزیدیت کو تحس نحس کر کے رکھ دیا۔
ایک کربلا اس وقت مسلمانوں پر ٹوٹی جب ہلاکو خان اور چنگیز خان جیسے ظالم یزید وقت بن کر مسلمانوں پر مسلط ہوئے اسقدر مسلمانوں کا قتل عام ہوا کہ دریائے دجلہ اور فرات سرخ رنگ میں بہے یزیدان وقت ہلاکو خان اور چنگیز خان سمجھے کہ ہم نے اسلام کے پرچارک مسلمانوں کا خاتمہ کر کے اسلا م ختم کر دیا مگر ایسانہ ہو سکا اسلام ایک بار پھر نئی آب و تاب سے دوبارہ دنیا میں پھیلا اسی لئے ہی شائید مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔ایک کربلا مسلمانوں پر اس وقت ٹوٹی جب برطانوی سامراج کے ہرکارے یزید وقت بن کر اسلامیان ہند کو نشانہ بنا رہے تھے جلیانوالہ باغ میں جس میں بے دریغ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی جس قدر لاشیں گریں اس سے دس گنا زیادہ مسلمانان ہند کے دل میں اسلام کو اک نئے ولولے کے ساتھ زندگی ملی اور جب دلوں میں مکمل ایمان کے ساتھ اسلام زندہ ہوا تو مسلمانوں نے اپنی نئی منزل کا تعین کیا انگریز کی غلامی سے آزادی حاصل کر لی تبھی تو مولانا نے کہا تھا اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔پھر ایک نئی کربلامسلط کی گئی ان مسلمانوں پر جنہوں نے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے حصول کے اپنے نئے وطن کی طرف رخت سفر باندھا اب کے یزید وقت کے روپ میں ہندو اور سکھ پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا عزتوں کی پامالیاں کیں اور وہ مسلمان بچے جو ابھی مائوں کے شکموں میں تھے انکو نیزوں پر پرویا گیا مقصد انکا بھی یہی تھا کہ مسلمان مارے جائیں اور اسلام ختم ہو جائے مگر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اس دور کے یزید بھی مقصد میں ناکامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر لعین ٹھہرے اور اسلام میں اک نئی زندگی جاگی اسی مقصد کو ہی تو مد نظر رکھتے ہوئے مولانا نے کہا تھا اسلام زندہ ہوتا ہے۔
ہر کربلا کے بعد ۔ایک کربلا اس وقت سامنے آئی جب یزید کی اولاداور یزید کی باقیات نے یزید کا روپ دھار کر آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی جس کے نتیجے میں آپس میں نبرد آزما تمام سیاسی قوتیں ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوگئیں یعنی جزبہ حب الوطنی اور جزبہ اسلام ان کے دلوں میں زندہ ہوا پھر دہشتگرد یزید صفت ظالموں کا دھڑن تختہ ہواس وقت کا یزید پھر مٹ گیا اور اسلام زندہ رہا یعنی اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔ایک کربلا ان دنوں برما میں جاری ہے جو بدھ بھگشو یزید عصر کے روپ میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس کربلا نے مسلمانوں کے دلوں میں ایک بار پھر جذبہ اسلام کو زندہ کیا اور تمام عالم اسلام میں یزیدان برما کے خلاف آواز بلند کی گئی یعنی اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ۔ایک کربلا چشم فلک نے ماڈل ٹائون لاہور میں بھی دیکھی جس میں یزیدی لشکر کے مقلدوں نے اپنے ہی وطن میں مسلمانوں کے خون کو بہاتے ہوئے دیکھا اور اس سپاہ میں وہ شمر مزاج لوگ بھی دیکھنے کو ملے جنہوں نے مستورات تک کو نہیں بخشا اور انکے منہ میں گولیاں مار کر شہید کر دیا جیسے یزید کے سپاہ سالار شمر نے اگر سید سجاد کو تازیانے مارے تو امام حسین کی چار سال کی معصوم شہزادی سکینہ کو تمانچے بھی مارے اسی شمر کی تقلید کرتے ہوئے ماڈل ٹائون لاہور میں بھی جہاں بوڑھوں بزرگوں پر بے دریغ لاٹھیاں برسائیں وہاں مسلمان مائوں اور بہنوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی سفاکی اور بربریت سے انکے حلقوم میں گولیاں بھی اتاری گئیں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو دیکھیں گے اگر پبلک کی گئی کہ اس میں کس کو یزیدیت کا تاج پہنایا گیا ہے کون ہے جو حرمل کے کردار میں دکھائی پڑتا ہے کس پر شمر کی سپاہ سالاری فٹ بیٹھتی ہے کون ھسین ابن نمیر ڈکلئیر ہوتا ہے کیونکہ کربلائے ماڈل ٹائون میںبھی تو یزیدیت کھل کے سامنے آنی ہی ہے نا وہ دیکھیں اب کیسے ہوتا ہے ان ظالم یزید سرشت لوگوں کے چہرے کیسے نقابوں کے پیچھے سے ظاہر ہوتے ہیں ماڈل ٹائون میں بھی تو کربلا بپا ہوئی تھی اور مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔۔۔۔۔۔