تحریر : شاہ بانو میر یہ آرٹیکل لکھنے کا مقصد تھا کہ رویے انتہا پسندی کیطرف ہیں خواہ وہ مذھبی ہو یا معاشرتی ہم زہنی طور پے نہ تو اچھے پاکستانی رہے اور نہ ہی اچھے مسلمان میں قطعا اس سوچ کی مذمت کرتی ہوں کہ ایک انسان ایک سوچ سے تنفر کرتے ہوئے کسی انسان کی زندگی ہی چھین لے ـ آزادی رائے ہر انسان کا پیدائشی حق ہے ہم کسی پر اپنی سوچ کو مسلط نہیں کر سکتےـ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے یہ ہے پیغام میرے آقائے دو جہاں آپ ﷺ کا اور مجھے یہی اسلام پسند ہے جو میں نے درسی کتب میں پڑھا جس میں تحمل کا درس ہے جس میں مساوات کا درس ہے جس میں برداشت کی انتہا نظر آتی ہے جہاں عزت تکریم آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
میرا ایک ماننا ہے کہ اللہ پاک نے نبی آخری الزماں کو خاتم النبین کا درجہ دیا اور واشگاف اعلان بھی فرما دیا ـ اور انکے دور نبوت کو ایک معجزہ قرار دیا جا سکتا ھے کہ کیسے انہوں نے ایک فلسفہ ایک سچائی نہ صرف بتائی بلکہ ایک اوسط عمر میں اسکو امپلیمنٹ بھی کر کے دکھایا اور آخری اینٹ فتح مکہ کی صورت ہمیں کامیابی دی ـ اور خود اعلان حج پر سب کو گواہ بنا کر یہ اعلان مبارک فرما دیا کہ “”ان اکملت لکم دینکم”” یہ سورہ مائدہ کی آیت مبارکہ ہےـ جس کے نزول پت یہودیوں نے فرط غم سے کہا تھاکہ کاش ایسی آیت ہم پے اترتی تو ہم اس روز جشن مناتے کہنا یہ چاہتی ہوں کہ جب دین مکمل ہونے کا اعلان بھی کر دیا گیا کہ آج آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہی آئے گا ـ تو کیا آپ ﷺ کے زمانے میں پوری دنیا سے کافر ختم ھو گئے برائی کا خاتمہ ہو گیا شرک ختم ھو گیا آتش پرستوں کے آتشکدے ٹھنڈے ہو گئے؟ نہیں بلکہ ہدایت وہی پا گئے جن کے اعمال اللہ کو پسند تھے اور ان پر اپنے رب کا کرم تھا۔
یعنی مصلحت یہی تھی کہ نیکی بھی رہے اور ساتھ ساتھ دوسرے عوامل بھی دین اسلام کی سچی روشنی بھی رہے اور اس روشنی کو پانے والوں کی عظمت اور انفرادیت بھی جب اللہ پاک جس کی منشا کی بغیر کوئی پتہ ہل نہی سکتا اللہ پاک نے ان سب عوامل کو فرقوں کو شر پسندیوں کو ختم نہیں کیا تو کیا ان میں ہمارے لئے کوئی سبق پوشیدہ نہیں؟ کہ ہمیں اپنی تعلیمات کے حسن کو ان سب کے درمیان رہ کر میانہ روی سے بردباری سے تحمل سے متانت سے ایک تسلسل کے ساتھ جاری وساری رکھنا ہوں گی۔
ایک پوری دنیا ہے جس میں اللہ کی رضا سے تمام مذاہب ہیں جو آپﷺ سے پہلے انبیاء اکرام آئے انکے پیرو کارکچھ بعد میں فلسفیاتی طور پے متاثر ہو کے ظہور پزیر ہوئے کچھ شخصیاتی طلسم کا نتیجہ تھے۔
جب ایک ایسی دنیا آج کی بن گئی جس کا پھیلاؤ بہت ہے جس کا حجم بہت ہےـ جس کی طوالت بہت ہے تو اب کیا کیا جائے ؟ سمجھداری سے حلیمی سے دلیل سے عمل سے اپنے آپ کو منفرد رکھ کر خود سے مرعوب کر کے انکو اپنے راستے پے چلایا جائے یا پھر تلوار سونت کر بڑکیں لگا کے قتلِ عام کر کے اسلام کے داعی بن جائیں ـ میں نے جو چار پانچ کتابیں پڑہیں زمانہ طالبعلمی میں مجھے تو وہی یاد ہیں جس میں پہلی جماعت سے لیکر چودہویں جماعت تک بس اسی بات کو بڑہاتے ہوئےدماغ میں محفوظ کر دیا گیا کہ اسلام امن و آشتی کا مذھب ہے۔
اسلام سلامتی سے نکلا ہے میرے نبی پاکﷺ نے گلے میں چادر ڈال کر گھسیٹنے والے کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا میرے آقا ﷺ نے خود پر کوڑا کرکٹ پھینکنے والی بڑہیا جب کئی روز کوڑا کرکٹ نہی پھینک سکی تو اسکی خیریت معلوم کرنے اسکے گھر پہنچے اور بخار کی حالت میں بے بس لاچار بوڑھیا کی تیمار داری کی جس سے وہ شرمندہ ہوئی اور مشرف بہ اسلام ہوئی ـ میرے نبیﷺ نے خواتین کو عزت احترام دیا اور ماں کی صورت جنت کا حقدار ٹہرایا۔
Muhammad PBUH
اسی دین میں بتایا کہ کسی کے خداووں کو برا نہ کہو آپﷺ نے خود پر مظالم کی انتہا دیکھ کر مدینہ ہجرت کی اور مساوات مدینہ ایک نیا فلسفہ دیا بنی نوع انسان کو ـ میرے آقا بنے گروہ بندی کو توڑا اور برائی اسی کیلیۓ مقرر کی جو تقویٰ میں سب سے معتبر ہو ایک اچھا مسلمان وہ ٹہرایا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رھے دوسروں کی عیب جوئی پر پردہ پوشی کا حکم دیا تاکہ رب ِ کریم ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی فرمائے ـ ادلے کا بدلہ سمجھایا یعنی بہادری سے رہنا سکھایا اپنے حقوق کے تحفظ کیلیۓ ہر ہر رشتے کے فرائض اور حقوق کو مکمل تشریح کے ساتھ واضح کیاـ عائلی قوانین خاندانی نظام معاشرتی اطوار حالتِ جنگ میں بھی کمزور ضعیف نادار بچے خواتین کا احترام اور کس نے دیا؟ کونسا زندگی کا پہلو ہے جس پر اسلام نے اپنے مختلف اور مکمل ہونے کی مہر ثبت نہی کی ـ میرا اسلام یہ ہے۔
میرے اسلام میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ کی فراہمی یقینی ہے انکو انکی عبادت گاہوں میں مکمل آزادی ہے ـ انکے تہواروں پر کوئی پابندی نہیآپ ﷺ نے خود کفار مکہ کے ساتھ معاہدوں کو طے کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک ہی جگہ ایک ہی شہر میں اکٹھے رہا جا سکتا ہے ـ آپ نے معاہدے پر دستخط کر دیے تھے جب ایک مسلمان زخموں سے چور آپکے پاس مدد کیلیۓ حاضر ہوئے لیکن ایفائے عہد کے تقاضوں کے تحت آپ نے انکو واپس کر دیا کیونکہ یہ طے ہو چکا تھاـ مجھے زہنی کوفت اور اذیت ہوتی ہے جب میں اتنے خوبصورت اسلام کو تو نہی پڑہتی لیکن مار دو قتل کردو جلا دو مٹا دو جیسےالفاظ کانوں میں زہرگھولتے ہیں ہمیں بڑی ذمہ داری سے اپنا محاسبہ کرنا ہو گا اسلام کونسا پھیلا رہے ہیں ہم؟ آپ ﷺ کا محبت بھرا مساوات پر مبنی انسان دوست یا پھر یا پھر کچھ اللہ کے معاملات کو ہم خودہاتھ میں لے رہے ؟ جب حکم ہے ہمارا ایمان ہے کہ ایک پتا بھی اسکی منشاکے بغیر جنبش نہی کر سکتا تو پھر یہ لاکھوں کروڑوں لوگ جو دنیا میں بس رہے ہیں ہم کیوں نہی سمجھتےکہ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہو گی۔
ہم کیوں نہی خود کو بہتر کرتے بجائے دوسروں پر حیل و حجت کے؟ کسی کے عیب دکھانے کی بجائے ہم اسلام کو ایک مسلمان کی حیثیت سے دنیا میں پھیلانے کا باعث بنیں اسکی خوبیوں کو اجاگر کریں ـ اور پوری دنیا میں جو ہمارا تشخص قصائیوں کی صورت دکھایا جا رہا ہے ـ اسکو ختم کریں ـ اور اسلام کا وہی نرم خوبصورت اور کامیاب نام اور چہرہ ایک بار پھر سے نمایاں کریں تاکہ اسلام کو پھر سے وہی تابناکی اور کامیابی حاصل ہو۔