تحریر : نعیم الرحمان شائق ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟اس کا جواب فی الوقت نہیں مل رہا ۔ اگر کوئی عام شخص اخلاق سے گری ہوئی بات کرے تو زیادہ افسوس نہیں ہوتا کہ وہ ہے ہی عام شخص ۔ مگر جب خواص بھی بداخلاقی کا مظاہر کرنے لگیں تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ جو کچھ حافظ حمد اللہ اور ماروی سرمد کے درمیان ہوا ہے ، وہ پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔ یو ٹیوب ایسی وڈیو کلپس سے بھری پڑی ہے ، جو ہمارے خواص کے اخلاقی دیوالیہ پن کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا وہ ضابطہ اخلاق اپنائے ۔ جس کا درس اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں ۔ہمارا دین اخلاق سب سے بڑا داعی ہے ۔ آج کی تحریر میں ہم کسی حد تک اسلامی ضابطہ ِ اخلاق کا جائزہ لیتے ہیں:
سورۃ النحل کی آیت نمبر 125 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: “اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو اللہ کی وحی اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیےاور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے ۔” اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہماالسلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو انھیں ، فرعون سے نرمی سے گفتگو کرنے کی تلقین فرمائی ۔ سورۃ طٰہٰ کی آیت نمبر 44 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: “تم دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا ، شاید وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے ۔” معلوم ہو ا کہ اسلام نرمی سے گفتگو کرنے کا قائل ہے ۔ اسلام سختی کا قائل نہیں ہے۔داعی نرم مزاج ہو گا تو اثر زیادہ ہوگا ۔ داعی سخت ہوگا تو اثر کم ہوگا ۔ ہو سکتا ہے کہ بالکل اثر نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نرم خو تھے ۔سورۃ آل ِ عمران کی آیت نمبر 159 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : “اللہ کی رحمت سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان پر نرم دل ہیں ۔ اور اگر آپ سخت زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔
سو آپ ان سے در گزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں ۔ ” اسلام کہتا ہے کہ اگر آپ کی دانست میں کوئی شخص آپ سے جاہلانہ گفتگو کر رہا ہے تو بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس پر سلامتی بھیجتے ہوئے آگے بڑھ جائیے ۔ سورۃ ِ فرقان کی آیت نمبر 63 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : “رحمٰن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔” سورۃ الحجرٰت کی آیت نمبر 11 میں کس طرح اخلاقیات کی تعلیم دی گئی ہے ، ملحوظ ہو: “اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم سے مسخرہ پن نہ کرے ۔ ممکن ہے کہ یہ اس سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں سے ، ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور آپس میں ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ۔ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں۔”
Hazrat Mohammad PBUH
اب اخلاق سے متعلق چند حدیثیں ملحوظ ہوں: صحیح بخاری کی حدیث ہے: “مسلمان وہ ہے ، جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں ۔”(رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ) صحیح بخاری کی ایک اور حدیث ہے: “تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں بن جاتا ، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے ، جو کچھ خود اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔”(رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ) صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کچھ یوں ہے : “راست بازی اختیار کرو ۔ باہمی محبت کو بڑھاؤ۔لوگوں کو اللہ کی طرف سے بشارت پہنچاؤ۔”(رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ) صحیح بخاری کی ایک اور حدیث ملحوظ ہو: “خبر دار! بد گمانی کو اپنی عادت نہ بناؤ۔ بد گمانی تو جھوٹ ہی جھوٹ ہوتا ہے۔
بے بنیاد باتوں پر کان نہ لگاؤ، اوروں کے عیب تلاش نہ کرو ۔ آپس میں بغض نہ رکھو ، کسی کی رو گردانی نہ کرو ، اے اللہ کے بندو !آپس میں بھائی بھائی بن کر روہو۔”(رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ) صحیح بخاری کی ایک اور حدیث ہے: “جو کوئی شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ، اسے لازم ہے کہ بات کہے تو اچھی بات کہے ورنہ خاموش ہی رہے ۔”(رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ)صحیحین کی ایک حدیث ہے: “شہ زور وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ دیتا ہے ، شہ زور تو وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو تھا م لیتا ہے ۔”(رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسی ٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اسلام کی تعلیمات کی اشاعت کے لیے مامور فرمایا۔
ALLAH
روانگی کے وقت انھیں ارشاد فرمایا: “لوگوں کے لیے آسانی پسند کرنا ، انھیں سختی میں نہ ڈالنا ۔ خوشخبری اور بشارت انھیں سنانا، دین سے نفرت نہ دلانا اور تم آپس میں مل جل کر رہنا ۔ (رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ) صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کچھ یوں ہے : “چار خصلتیں جس شخص میں ہوں ، وہ منافق ہے ۔اگر ان چار (4) میں سے کوئی ایک (1)خصلت اس میں ہے تو نفاق کی ایک علامت اس کے اندر ہے۔ 1۔بولے تو جھوٹ بولے۔ 2۔ وعدہ کرے تو خلاف کرے ۔ 3۔ عہد کرے تو پورا نہ کرے ۔ 4۔ جھگڑنے لگے تو فحش بکنے لگے ۔”(رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ، قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ) قرآن حکیم کی کئی آیات اور احادیث ِ مبارکہ کا ایک وسیع مجموعہ اخلاقیات سے بھرا ہو ا ہے ۔ پھر ہم تو اس نبی کے امتی ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے حسن ِ اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا تھا ۔ اگر ہم ہی اسلامی ضابطہ ِ اخلاق نہیں اپنائیں گے تو کون اپنائے گا ۔ ذرا سوچیے!!