بر صغیر پاک و ہند میں تصوف دسویں صدی عیسوی میں متعارف ہوا۔بزرگانِ دین اور صوفیا کرام غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے اور ذات پات کی تفریق سے منع کرتے۔ اُنھوں نے ہندوستان میں لوگوں کو مساوات کا درس دیااور ادنیٰ ذات کے لوگوں سے محبت و شفقت کا سلوک کیا۔برصغیر میں صوفیاکرام نے اسلام کوپھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔اُنھوں نے برصغیر میںکثیر تعداد میں لوگوں کو مسلمان کیا۔ وہ ہرممکن طریقے سے لوگوں کو راہ ِ ہدایت پر لاتے رہے۔صوفیاکرام مسلمانوں کی روحانی زندگی کا مرکز تھے ۔اُنھوں نے اپنی ساری زندگی اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کر دی۔لوگوں کو اُخوت ، بھائی چارے اور امن کا پیغام دیتے رہے۔ وہ سیاست اور حکومت سے دور رہتے تھے۔ حاکم ِ وقت اُن کی عزت کرتے تھے۔
غیر مسلم بھی اُن کا احترام کرتے تھے ۔صوفیا کرام نے کتابیں بھی لکھیں اور درس و تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ انھی بزرگان ِ دین میں ایک معتبر نام حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش ہے۔ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش مشہور صوفی بزرگ اور ولی اللہ تھے۔آپ افغانستان کے شہر غزنی کے قریب ہجویر میں 1009 میںپیدا ہوئے۔ اسی لیے آپ کے نام کے ساتھ ہجویری لکھا جاتا ہے۔آپ کا سلسلہ ِ نسب آٹھویں پشت پر حضرت علی سے ملتا ہے۔آپ کے خاندان نے بعدازاں ہجویر چھوڑ کر غزنی کے محلہ جلاب میں رہائش اختیار کر لی۔اس لیے آپ کے نام کے ساتھ جلابی بھی لکھا جاتا ہے۔
آپ کا خاندان علم و تقویٰ میں مشہور تھا۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم غزنی سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے حصول کے لے خراسان ، کرمان،عراق،شام ، لبنان ،آذربائیجان اور دیگر علاقوں کا سفر کیا اور کثیر علماء سے علم حاصل کیا آ۔پ نے دین کی دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں بے شمار مصیبتیں اُٹھائیں۔ آپ نے علم کے ساتھ عمل کرنے پر بھی بہت زور دیا ۔ آپ کی تعلیمات اور کردار آج بھی ہمارے لیے شمع ِ ہدایت ہے۔آپ کو اپنے استاد اور مرشد کی جانب سے حکم دیا گیا تھا کہ آپ لاہور تشریف لے جائیں۔ تاکہ لوگ آپ کی ذات با برکات سے مستفید و فیض یاب ہوں اور آپ کے ذریعے دین کا بول بالا ہو ۔ چنانچہ آپ اپنے استاد و مرشد کے حکم کے مطابق 1039 میں غزنی سے لاہور تشریف لے آئے۔آپ نے یہاں ایک مسجد تعمیر کی اور ایک درسگاہ کا بھی آغاز کیا۔
اُس وقت لاہور پر غزنوی خاندان کی حکومت تھی۔ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے اخلاق و کردار اور کرامات سے متاثر ہو کر ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔آپ کا اصلی نام علی بن عثمان ہے ۔گنج بخش لقب ہے جس کے معانی ہیں خزانہ بخشنے والا۔ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش کو یہ لقب مشہور صوفی بزرگ اور ولی اللہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے دیا تھا ۔ چونکہ آپ کی تبلیغی کوششوں سے ہزاروں لوگوں کو ہدایت ملی ۔ اس لیے علم و ہدایت کا خزانہ تقسیم کرنے کے معانی میں آپ اس لقب کے حقدار تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے اصل نام کی بجائے حضرت داتا گنج بخش کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش قرآن و حدیث اور فقہ کے عالم تھے۔
آپ کی مادری زبان فارسی تھی تاہم آپ کو عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔آپ کے زمانے میں مسلمانوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے معاشرے میں دین کی جڑیں کمزور ہو رہی تھیں۔ آپ نے انسانیت کی بہتری اور دین سے آگاہی کے لیے بہت سی کتابیں تحریر کیں جن میں کا موضوع تصوف تھا اور اُن میں سب سے مشہور کتاب کشف المجوب ہے ۔جو کہ فارسی زبان میں ہے مگر اس کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔
اس کتاب میں آپ نے تصوف سے متعلق لوگوں میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کودور کیا اور تصوف کی حقیقت بیان فرمائی۔کشف المجوب ایسا شاہکار ہے جس کی بدولت برصغیر پاک و ہند میں صحیح اسلامی تصوف نے فروغ پایا ۔ اس خوبی کی بنا پر آج بھی کشف المجوب کی اتنی ہی قدرومنزلت ہے جتنی آج سے نو سو سال پہلے تھی۔کتاب کا اندازِ بیان سادہ اور واضح ہے ۔آپ نے لوگوں کو ہمیشہ حصول علم کی ترغیب دی اور غافل و جاہل صوفیاء کی صحبت سے بچنے کی تاکید کی۔آپ فرماتے تھے کہ فقیر کو صبر اور غنی کو شکر کا رویہ اپنانا چاہیے۔
آپ کی تعلیمات کے مطابق حقیقی صوفی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ۖ کے احکامات کی پیروی کرنے والا ہو۔ اخلاقِ حسنہ پر عمل پیرا ہو۔ بدی ،کینہ حسد، جھوٹ، مکرو فریب اور لالچ سے پر ہیز کرنے والا ہو۔آپ کی وفات مشہور روایت کے مطابق 1072 میں ہوئی ہے، آپ کا مزار شریف لاہور میں ہے جو کہ داتا دربار کے نام سے مشہور ہے ۔ اسی نسبت سے لاہور کو داتا کی نگری بھی کہا جاتا ہے ۔ ہر سال آپ کا عرس عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ۔ لوگ دور دراز سے آکر آپ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔