حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان، مال، اولاد، ماں باپ غرض کہ ہررشتے سے بڑھ کر محبوب نہ سمجھے”محبت رسول اللہ ۖ ایمان کی جان ہے اور بغیر جان کے جسم مردہ ہوتا ہے زندہ نہیں یعنی جس شخص کے دل میں نبی کریم ۖ کیلئے محبت نہیں وہ دل مردہ ہے۔
16 ستمبر 2012 کے روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحے پر برداشت کے عنوان سے ایک کالم شائع ہواجس میں کالم نگارنے ایک یہودی جس کانام اس نے ربی لکھا کا حوالہ دے کربتایاکہ ربی یہودی اسلام پرپی ایچ ڈی کررہاتھاجس میں اُس کی ریسرچ کاموضوع تھا مسلمانوں کی شدت پسندی ،کالم نگارنے انتہائی مہارت کے ساتھ ربی یہودی کی گفتگوکواپنے کالم کی لڑیوں میں موتیوں کی طرح پروکرپیش کیا۔کالم نگارنے بتایاکہ ربی یہودی مسلمانوں کی شدت پسندی پر اپنی پانچ سالہ ریسرچ کے بعد اس نتیجے پرپہنچاہے کہ مسلمانوں کے دل سے اُن کے نبیۖ کی محبت نکال دی جائے توانہیں ہرمیدان میں شکست دی جاسکتی،کالم نگارکے مطابق ربی یہودی نے کہاکہ مسلمان ہربات پرسمجھوتہ کرلیتے ہیں پراپنے نبیۖ کے متعلق کسی قسم کی منفی بات برداشت نہیں کرتے یعنی مسلمانوں کی اصل طاقت محبت رسول اللہۖ ہے،کالم نگارنے یہ اعتراف بھی کیاکہ وہ ربی یہودی سے ملاقات سے قبل سماجی مسلمان تھاجبکہ ربی یہودی نے اسے دوفقروں میں پورااسلام سمجھا دیا۔
کالم نگارکے کالم میں ربی یہودی کی گفتگوکوبڑی پذیرائی ملی جوآج تک جاری ہے۔جبکہ راقم نے وہ کالم پڑھاتوشدیددکھ ہواکہ ایک بڑے مسلم کالم نگارکو محبت رسول اللہ ۖ کادرس اس یہودی سے قبل والدین یااساتذہ نے کیوں نہ دیا؟اس کو محبت رسول اللہ ۖ کاسبق ایک یہودی جو مسلمانوں کی شدت پسندی پرریسرچ کررہاتھاسے ملاجبکہ میں یہ بات تسلیم نہیں کرسکتاکہ دل میں محبت رسول اللہ ۖ رکھنے والامسلمان شدت پسندبھی ہوسکتاہے جبکہ کالم نگارکے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے ربی یہودی نے خود یہ بات تسلیم کی کہ مسلمان اپنے نبی ۖ کی طرف اٹھنی والی انگلی کے علاوہ ہرظلم،دکھ،تکلیف برداشت کرلیتے ہیں یعنی ربی یہودی نے اپنے ریسرچ کے موضوع کوخود ہی غلط قراردے دیاتھا۔خیراس کالم کے جواب میں راقم نے19ستمبر2012 (یہودی مسلمان کامحسن؟)کے عنوان سے تفصیلی کالم لکھاتھاآج ایک بارپھرسے اس موضوع کودہرانے کامقصد یہ ہے کہ کوئی بڑاکالم نگارکسی یہودی سے محبت رسول اللہۖ کا درس لے کر دوفقروںمیں پورا اسلام سمجھنے کا دعوہ کرے تو پوری قوم واہ واہ کہہ اٹھتی ہے جبکہ باباخادم حسین رضوی رات دن حتی کہ ہرلمحہ محبت رسول اللہ ۖ پر بات کرے تو نہ صرف تمام لبرل طبقہ مخالف ہوجاتاہے بلکہ یہودی کی بات پرواہ واہ کرنے والے بھی منہ موڑلیتے ہیں۔
کوئی یہودی کسی کالم نگارکودوفقروں میں پورااسلام سمجھا سکتاہے تو پھر اُس کالم نگار کوباباخادم حسین رضوی کی بات سمجھ کیوں نہیں آتی ؟ یہ سچ ہے کہ سمجھ اسی کی آتی ہے جو دل میں بسا ہو۔ محبت رسول اللہ ۖ کا سہارا لے کر یہودی کی تعریف کرنا اور بات ہے اور بابا خادم حسین رضوی کامحبت رسول اللہۖکے موضوع پر درس سمجھ پانا اور بات ہے۔ بابا خادم حسین بہت حساس بات بڑے سادہ انداز میں قوم کو بڑی ہی سنجیدگی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیںاور وہ یہ ہے کہ ناموس رسالت مآب ۖ پر سمجھوتے کا مطلب ہے عذاب الٰہی کو کھلی دعوت۔ رسول اللہ ۖ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں اس لئے نبی کریم ۖ کی ناموس کاتحفظ بھی بلاتفریق سب پرفرض ہے،باباخادم حسین رضوی صرف مسلمانوں کوہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں سمیت تمام مخلوقات کی بقاء کا پیغام سنا رہے ہیں۔
کیونکہ جب عذاب آتاہے توتمام مخلوقات اثراندازہوتی ہیں،میراسوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کرنے والے یہودی کی بات پر ایمان لانے والوں کو وہی بات باباخادم حسین رضوی کی زبان سے زہر کیوں لگتی ہے؟باباخادم حسین رضوری یہی کہتے ہیں کہ اپنے نبیۖ کے ساتھ بے حساب محبت کرو،اپنے نبی ۖ کے ساتھ وفاکرو،محبت رسول اللہ ۖ کاتقاضایہی ہے کہ ناموس رسالت مآب ۖ کاتحفظ ہرحال میں یقینی بنایا جائے ورنہ مسلمان کی زندگی کاکوئی مقصد نہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنی میں محبت رسول اللہ ۖ کے تقاضے سمجھنے اور وفانبھانے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@mail.com.. 03134237099