تحریر: حبیب اللہ سلفی وفاقی وزیر بین الصوبائی امورریاض حسین پیرزادہ نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں عدم استحکام کا ذمہ دار سعودی عرب ہے جومسلم دنیا میں اپنے نظریے کے فروغ کے لیے رقم تقسیم کر رہا ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جناح انسٹیٹیوٹ نامی تھنک ٹینک کے زیر اہتما م ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے (ن)لیگی وزیر کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سعودی عرب سے پاکستان پیسوں کی آمد کا سلسلہ بندکیا جائے۔ریاض پیرزادہ نے فوجی عدالتوں کے قیام پر اپنی حکومت پر بھی سخت تنقید کی اور کہاکہ آزاد عدلیہ کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کا قیام کمزور اور خوف زدہ قیادت کی نشاندہی کرتی ہے۔ایسی بزدل قیادت کو کوئی حق نہیں کہ وہ حکومت میں رہے۔مذکورہ کانفرنس سے جناح انسٹیٹیوٹ کی سربراہ شیری رحمن، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود ،عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما افرسیاب خٹک اورمتحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما فاروق ستار نے بھی خطاب کیا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیاں تبدیل ہوتی رہیں خاص طور پر نائن الیون کے بعد پالیسیوں میں تغیرات کے باعث بعض مرتبہ یہ چیزیں تعلقات میں اتار چڑھائو کا باعث بنتی رہی ہیں مگراس کے باوجود ان دونوں ملکوں کے تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے۔ مملکت سعودی عرب نے ہر موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا اورہر مشکل وقت میں مددکا حق ادا کیا ہے۔
سعودی عرب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ جب کبھی بھی زلزلے و سیلاب یا تھرپارکر جیسے علاقوں میں قحط سالی کی صورتحال پیدا ہوئی سعودی عرب اسی وقت وطن عزیز پاکستان کے مصیبت زدہ عوام کا سہارا بنا ہے۔1965ء کی پاک بھارت جنگ ہو، روس کے افغانستان پر حملہ کے وقت افغان پناہ گزینوں کی امداد کا مسئلہ ہو، آزاد کشمیر و سرحد میں آنے والا خوفناک زلزلہ یا 2010ء اور 2011ء میں آنے والے خوفناک سیلاب ہوںسعودی عرب کبھی پیچھے نہیں رہا۔حتیٰ کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنا تھے اور امریکہ ویورپ سمیت پوری دنیا کا دبائو تھا کہ پاکستان ایٹمی دھماکوں سے باز رہے۔ان مشکل ترین حالات میں بھی سعودی عرب نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
اس طرح اگر یہ کہاجائے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوںمیں سعودی عرب کابھی کردار ہے تو یہ بات غلط نہ ہو گی۔ یہ ساری رپورٹ سعودی اخبار المدینہ میں تفصیل سے شائع ہو چکی ہے۔سابق دورحکومت میں سعودی عرب سے شاید تعلقات اتنے مضبوط و مستحکم نہیں تھے جو موجودہ حکومت کے دور میں دیکھنے میں آرہے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے پاک سعودی قیادت کے مابین رابطوں وملاقاتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چند دن قبل بھی نواز شریف خادم الحرمین الشریفین کی عیادت کیلئے سعودی عرب گئے جہاں انہوںنے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزکی عیادت کے علاوہ سعودی اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔تاہم ان حالات میںکہ جب دونوں برادر ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات مزید مضبوط ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور سعودی حکومت پاکستان میں اربوں روپے مالیت کے منصوبہ جات پر کام کر ہی ہے’ مسلم لیگ (ن) کے ہی ایک وزیر کی طرف سے سعودی عرب کے خلا ف بے سروپا بیان بازی کی گئی ہے۔
Muslim League (N)
ریاض پیرزادہ کی جانب سے امت میں عدم استحکام کا ذمہ دار سعودی عرب کو قرار دینے پر جہاں برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے سفارتی حلقوں کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے وہاںمحب وطن مذہبی و سیاسی جماعتوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے بھی اسے پاک سعودی تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔مسلم لیگ(ن) کے ایک وزیر نے یہ باتیں جناح انسٹی ٹیوٹ نامی تھنک ٹینک جس کی سربراہ شیری رحمن ہیں’ کے زیر اہتمام سیمینار میں کی ہیں۔ شیری رحمن اس پارٹی کی لیڈر ہیں جس کے دور اقتدار میں میڈیا میں عام طور یہ خبریں گردش میں رہی ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں اس قدر کمزوری کبھی نہیں آئی جو ان کے دور حکومت میں تھی اس لئے اس پروگرام کے انعقاد کے حوالہ سے بھی شکوک و شبہات کا اظہا رکیا جارہا ہے۔عرب امور کے ایک ماہر تجزیہ نگار کا کہنا ہے
عمومی طور پر ایسے پروگرام طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہوتے ہیںجس کی باقاعدہ فنڈنگ ہوتی ہے اور پھر اس میں اپنی مرضی کی گفتگو کرواکے میڈیا میں نشر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پروگرام بھی خالصتا اسی مقصد کے تحت منعقد کیا گیا ہے۔مذہبی و سیاسی جماعتوں کی جانب سے ریاض پیر زادہ کے اس بیان کو ملک میں فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش قرا ر دیا جارہا ہے۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر کے اس بیان سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے۔انہیں سعودی عرب کے پاکستان پراحسانات نہیں بھولنے چاہئیں۔وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ اپنی کابینہ کے اہم و فاقی وزیر کے اس بیان کا نوٹس لیں۔مرکزی جمعیت اہلحدیث اور دیگر جماعتوںنے ریاض پیرزادہ کو برطرف نہ کرنے پر ملک گیر احتجاج کی دھمکی دی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی سخت تنقید کی جارہی ہے۔ بہرحال ساری مسلم دنیا اس وقت گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر سخت غم و غصہ کی کیفیت میں ہے۔
ہر دل زخموں سے چور ہے’ ریاض پیرزادہ کو اس موضوع پر تو بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن اپنا سارا زور انہوں نے سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈا اور سیاسی وعسکری قیادت کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے قائم کردہ فوجی عدالتوں پر تنقید کرتے پر لگا دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم نواز شریف کو ریاض پیرزادہ کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف کئے جانے والے بے بنیاد پروپیگنڈا کو نوٹس لینا چاہیے اور اس بات کی بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ انہوںنے یہ باتیں کس کے ایماء پر کی ہیں اور وہ پاکستان میں کس کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں؟۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے سعودی عرب کی جانب سے ڈیڑھ ارب ڈالر امدادفراہم کرنے کا اعلان کیا گیا
تواس وقت بھی ایک مخصوص ایجنڈا رکھنے والی بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے منظم منصوبہ بندی کے تحت اس امداد کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور ایسے بے بنیاد پروپیگنڈے کئے گئے جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ بعض کالم نگاروں اور ٹی وی اینکر پرسن کی جانب سے اس وقت سیکولر لابی کو خو ش کرنے کیلئے جورویہ اختیار کیا گیا وہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں تھا۔ وزیر اعظم پاکستان سمیت دیگر حکومتی ذمہ داران نے صاف طور پر وضاحت کی کہ ڈیڑ ھ ارب ڈالر کی امدادمحض تحفہ میں دی گئی ہے ۔ اسی طرح سابق سعودی سفیرعبدالعزیز الغدیر نے بھی واضح طوپر کہاکہ سعودی عرب پاکستان میں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں رکھتا۔ہم پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان کی تمام حکومتوں کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں
Pakistan
لیکن منظم منصوبہ بندی کے تحت پروپیگنڈا کا طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان شام یا کسی اور ملک میں اپنی فوج بھیج رہا ہے اس لئے یہ امداددی جارہی ہے لیکن بعد میں صاف طو رپر واضح ہو گیا کہ ان الزامات کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں تھی۔سعودی عرب جہاں پاکستان میں اربوں روپے مالیت کے بیشتر منصوبہ جات پر کام کر رہا ہے وہیں دیگر مسلم دنیا کی بھی ہر مشکل وقت میں مدد کرتا آرہا ہے۔ مغربی ممالک میں کتاب و سنت کی دعوت جس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اس میں واضح کردار سعودی عرب کا ہے۔ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی نگاہوں کے مرکزاس ملک کو اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے محفوظ رکھے اور دین اسلام کی سربلندی اور کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔