کون سا وقت آئیگا جب عالم اسلام فلسطینیوں کیلئے خون کا آخری قطرہ بہائیگا: بی بی سی

BBC

BBC

کراچی (جیوڈیسک) سنیچر کی شام امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی جانب سے سیاسی، سماجی و مذہبی معززین ِ کراچی اور چنیدہ صحافیوں کیلئے دعوتِ افطار کا اہتمام تھا۔

سٹیج کا بیک ڈراپ وہ پینا فلیکس تھا جس پر مسجد اقصی کے گنبد کے آگے ایک بلند زخمی خون آلود ہاتھ اٹھا ہوا تھا اور لکھا تھا آج کی شام غزہ کے نام۔قناتوں پر شہید بچوں اور بڑوں کی تصاویر آویزاں تھیں۔ سراج الحق نے کہا کہ آج پھر امت مسلمہ محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کو پکار رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کو متحد ہو کر صیہونیت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ویسے تو سعودی عرب کو عالمِ اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

ضرورت ہے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور عرب لیگ کو فعال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ عالم اسلام کے حکمران سو رہے ہیں مگر امتِ مسلمہ جاگ رہی ہے۔اگر عزم اور نیت ہو تو جنگل کے جانور بھی راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔کچھ تلواروں کا بھی ذکر ہوا۔ فلسطینیوں کو باہمی اختلافات ختم کرنے اور متحد ہونے کی بھی تلقین کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فلسطینی خود کو تنہا نہ سمجھیں، پورا عالمِ اسلام ان کے ساتھ ہے۔

وقت آنے پر ہم میں سے ہر ایک ان کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دے گا۔ تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سا وقت آئے گا جب عالمِ اسلام میں سے ہر ایک خون کا آخری قطرہ بہائے گا۔ ویسے سب جوشیلے مقرروں کو خون کا آخری قطرہ بہانے سے ہی اتنی دلچسپی کیوں ہے۔خون کا پہلا قطرہ بہانے کی بات کوئی نہیں کرتا۔لیکن قطرہ بھلے آخری ہو یا پہلا، جب باتوں میں ہی بہنا ہے تو کوئی سا بھی بہا لیں۔ویسے میں نے آج تک قطرہ ٹپکتے تو دیکھا ہے بہتے بھی کسی دن دیکھ ہی لوں گا۔

اس تقریرِ پرتاثیر سے اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے زیادہ مقصود سات سے ساڑھے سات بجانا تھا۔سو جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو امیر صاحب سمیت تمام روزہ داروں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ کھجور اٹھائی ، خون کے رنگ کا ٹھنڈا روح افزا انڈیلا اور غزہ کے پیاسوں کو یاد کرتے ہوئے روزہ کھولا۔ نمازِ مغرب کے بعد شہدائے غزہ کے لیے بلند درجات اور ان کے مصائب کے خاتمے کے لئے دل ہی دل میں دعا مانگی گئی۔ اور پھر ٹوٹے دل کے ساتھ قورمہ، بریانی، کھیر اور آئس کریم کی جانب نگاہ کی گئی۔

کچھ نے کھانے کے بعد غزہ کے بھوکوں کو یاد کرتے ہوئے دور خلاؤں میں نگاہیں گاڑ کر سگریٹ سلگا لی اور باقی سلگتے دلوں کے ساتھ ڈکار لیتے لیتے اپنے اپنے گھروں اور کاموں کو رخصت ہوئے۔ اس وقت غزہ میں لگ بھگ پانچ بج رہے تھے اور اذانِ عصر بمباری کی گونج سے لگاتار لڑ رہی تھی۔