اسلام: پر امن اور سلامتی والا دین۔ ٢

Islam

Islam

تحریر : میر افسر امان

ہم گزشتہ مضمون میں غیر مسلموں کی طرف سے بے قصور انسانوں کی جان لینے کی اور اسلام کی طرف انسانی جان کی حرمت کی تفصیل بیان کر چکے ہیں۔ اب اس مضمون میں کسی شخص کو بے قصور قتل کرنے والے سے بدلے میں جان لینے کے لیے اسلام میں بیان کیے گئے حکم کی بات کریں گے۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کی تفصیل بھی بیان کریں گے۔ قتل بلحق اور قتل بغیر حق کا فرق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضع کر دیا ہے۔قتل بلحق کی اگر اجازت نہ ہو تو دنیا میںامن قائم نہیں ہو سکتا۔نہ شر وفساد کی جڑ کٹ سکتی ہے۔نہ یہ نیکوں کو بدوں کی شرارت سے نجات مل سکتی ہے۔نہ حق دار کو حق مل سکتا ہے۔نہ ایمان داروں کو کو ایمان اور ضمیر کی زادی حاصل ہو سکتی ہے۔نہ سرکشوں کو ان کے جائز حدود میں محدود رکھا جا سکتا ہے۔ نہ اللہ کی مخلوق کومادی و وروحانی چین میسر آ سکتا ہے۔اللہ نے قرآن میں قصاص کا قانون مقرر کیا ہے۔اگر کسی فرد نے سرکشی کرتے ہوئے کسی انسان کی بے قصور جان لی ہے تو اسے اس کے بدلے میں اس کو قتل کیا جائے گایااس کے وارثوں کی رضا مندی سے دیت پر فیصلہ ہو گا۔یہ قصاص کا قانون جس طرح افراد کے لیے ہے ۔ اسی طرح جماعتوں کے لیے بھی ہے۔افراد کی طرح جماعتیں اور قومیں بھی سرکش ہوجاتی ہیں۔

ان کے خلاف جنگ کی اجازت اس لیے ہے کہ دنیا میں فساد کو مٹایا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے” اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو صومعے اور گرجے اورمعبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، مسمار کر دیے جاتے”(الحج۔٤)اس میں صرف مسلمانوں کی مسجد کا ذکر نہیں بلکہ عیسایوں کے صوامع، مجوسیوں کے معاہد، اور صابیوں کے عبادت خانوں کا بھی ذکر ہے۔ بتاناکا مقصد یہ ہے کہ اگر اللہ عادل انسانوں کے ذریعہ سے ظالم انسانوں کو دفع نہ کرتا رہتا تو دنیا ظلم سے بھر جاتی۔ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ”اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھر جاتی، مگر دنیا والوں پر اللہ کا بڑا فصل ہے(البقرہ۔ ١٥١)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ” یہ لوگ جب کبھی جنگ و خونریزی کی آگ بھڑکاتے ہیں تواللہ اس کو بجھا دیتا ہے۔ یہ لوگ زمین میںفساد بر پاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا(المائدہ۔٦٤) ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ” جن لوگوں سے جنگ کی جاری ہے انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور اللہ ان کی مدد پر یقیناً قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے ہیں۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے” (الحج۔٣٩۔٤٠) یہ قرآن کی پہلے آیت ہے جو قتال کے بارے میں اُتری۔اللہ نے ظلم کرنے والوں سے مظلوں کو جنگ کرنے کی اجازت دی ہے۔

ایک اور جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ” تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ برے ظالم اور جفا کار ہیں، اور ہمارے لیے خاص اپنی طرف ایک محافظ و مددگار مقرر فرما”( النسا۔٧٥) جس جنگ کا اس آیت میں ذکر آیا ہے یہ کمزروں کی طرف سے ظالموں اور مفسدوںکے خلاف اللہ کی طرف سے جنگ کہا گیا ہے۔اس جنگ میں ذاتی فاہدے نہیں بلکہ خدا کی خوشنودی کے لیے ہے۔اس جنگ کو اس وقت تک جاری رکھنے کا حکم دیا گیا جب تک بے گناہ بندوں پر ذاتی فاہدے کے لیے ظالوں نے مسلط کی گئی اپنے انجام کو نہ پہنچ جائے۔

جہاد فی سبیل اللہ کی فضلیت قرآن میں جگہ جگہ بیان کی گئی ہے۔” اللہ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھے ہوئے جم کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں”( الصف ۔٤)پھر یہ وہ حق پرستی کی جنگ ہے جس میں ایک رات کا جاگناہ ہزار روتیں جاگ کر عبادت کرنے سے بڑھ کر ہے۔جس کے میدان میں جم کر گھڑے ہونا گھر بیٹھ ک ٦٠ برس تک نمازیں پڑھتے رہنے سے افضل گیا ہے۔ جس میں جاگنے والی آنکھ پر دوزخ کی آگ حرام کر دی گئی ہے۔جس میں غبار آلود ہونے والے قدموں کو کبھی بھی دوزخ کی طرف نہیں گھسیٹے جائیں گے۔ جہاد فی سبیل اللہ کا اعلان ہونے پر گھر بیٹھ جانے والوں کو عذاب کی نوید سنائی گئی ہے۔

جہاد فی سبیل اللہ کرنے سے دشمن کے علاقے، سلطنت، زمین، مال دولت اوردیگر فاہدوں کے لیے نہیں لڑنی جاتی بلکہ اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اللہ کی زمین میں اللہ کے کمزور بندوں کو ظالموں اور فسادیوں سے چھڑانے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ اگر اس وقت دوسری قوموں کے چھوڑ کر اپنی پڑوسی ازل دشمن ہنددئوں کے مذہب میں جنگ کے بارے تعلیمات پر اگر بات کی جائے کہ وہ کس طرح ذاتی منعفت کے لیے جنگ کرتے ہیں۔گیتا ٢۔ ٣٧ میں لکھا ہے کہ کرشن جی نے اُرجن سے کہا تھا کہ اگر تو اس جنگ(مہا بھارت) میں کامیاب ہوا تو” دنیا کے راج کو بھوگے گا” جبکہ قرآن میں کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ قتال فی سبیل اللہ کرنے سے تمھیںدولت اور حکومت ملے گی۔بلکہ ہر جگہ اللہ کی خوشنودی، اللہ کے ہاں درجات اور عذاب سے نجات کا کہا گیا ہے۔ جب کہ جنگ میں جیت کے بعد تو یہ ساری باتیں خودبخود مجائدین کو مل جاتیں ہیں۔

٢
صاحبو!اسلام نے کبھی بھی کسی پر ظلم کرنے یا مال دولت کے حصول کے لیے جنگ کی اجازت نہیں دی۔ رسول ۖ اللہ پرجنگ بدر، جنگ اُحد، جنگ خندق اور دوسری جنگیں کافروں کی طرف سے مسلط کی گئی۔ فتح مکہ پر بھی اللہ کے رسولۖ اللہ نے اپنے جانی دشمنوں کو معاف کر دیا۔ کافروں نے رسولۖ اللہ کو اپنے گھر مکہ سے نکالا اور ہجرت پر مجبور کیا مگر اللہ کے رسولۖ نے مکہ میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد جانی دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔بلکہ معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈے گئے تاکہ خون خرابہ نہ ہو۔ فتح مکہ کے موقعہ پررسولۖ اللہ کی طرف سے کہا گیا کہ جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا اُسے معافی، جو اپنے گھروں سے باہر نہ نکلے اُس کو معافی۔ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا اُس کو معافی ۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کی برکات تھیں۔اللہ مسلمانوں کے جہاد فی سبیل اللہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اس سے دنیا میں امن و امان قائم ہو گا۔ اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے دنیا میں پھیلائی گئی قتل غارت ختم ہو گی۔دنیا کے لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔انسانیت عروج پر ہو گی۔ افراد اور قومیں ایک ددسرے کے جائز حقوق کا خیال رکھیں گے اور یہ دنیا بھی جنت کا نظارہ بن جائے گی۔یہ کام دینِ اسلام ہی کر سکتا ہے، کیونکہ اسلام ایک پر امن اور سلامتی والا دین ہے۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان