روزِ اول سے حق و باطل کی معرکہ آرائی شدت سے جاری ہے جس دن سے انسان نے اِس دھرتی کو رونق بخشی ہے اُس دن سے نیکی اور شر کی جنگ جاری ہے اور یہ سلسلہ روزِ محشر تک اِسی طرح جاری رہے گا ‘ زیادہ تر اِس دھرتی پر شر شیطانی قوتوں جہالت ظلم و جبر زیادتی لوٹ مار قتل و غارت اور غریبوں مہتاجوں ناکسوں پر ظلم کا بازار ہی گرم رہا ہے عام انسان ظلم و جبر کی ظالم چکی میں پستے آرہے ہیں اِس دوران جب بھی ظلم حد سے بڑا تو حق تعالی نے اپنے کسی نیک بندے کو بھر پور کردار پیکر شفقت بنا کر اُس علاقے میں بھیج دیا اور پھر ایسا نیک بندہ جب مرض الموت میں مبتلا انسانیت کے مردہ جسم میں زندگی کی حرارت دینے کی کوشش کر تا ہے دکھی لاچاروں بے کسوں کے آنسو پونچھ کر اُنہیں گلے سے لگا کر ان کی داد رسی کرتا ہے تو سر اور شیطانی قوتوں کے آلہ کار اُس کی شدید مخالفت پر اُتر آتے ہیں اِس سلسلے کی عظیم کڑی کے طور پر جب اشارہ غیبی کے تحت شیخ بابا فرید ظلمت کدہ اجو دھن میں مسیحا کے طور پر جلو ہ افروز ہو تا ہے تو سسکتے تڑپتے غریب مسکین لوگ آپ کے گرد جمع ہو نا شروع ہو جاتے ہیں۔
بابا فرید کی باطنی شخصیت کے ساتھ ظاہری شکل و صورت بھی بہت سحر انگیز خوبصورت تھی دراز قد دلکش نقش و نگار سرخ و سفید رنگ روشن روحانی چہرہ جس پردل آویز تبسم ہر وقت چاند کی طرح روشن رہتا جو بھی آپ کو دیکھتا آپ کا دیوانہ ہو جاتا ‘ کثرت عبادت ریاضت فاقہ کشی کی وجہ سے کمزوری آپ کے وجود پر قابض رہتی آپ جسمانی صحت کا خیال بھی کم ہی کر تے لباس ہمیشہ پیوند لگا کر پہنتے ایک بار کسی امیر عقیدت مند نے خوبصورت قیمتی ریشمی لباس لاکر پیش کیا اُس کی دل جوئی کے لیے اُس وقت تو پہن لیا لیکن جیسے ہی وہ شخص واپس گیا قیمتی لباس اتار کر اپنے چھوٹے بھائی کو دیا اور خود اپنا پیوند لگا لباس پہن لیا اور بولے میری تسلی تسکین تو پرانے پیوند لگے کپڑوں میں ہی ہو تی ہے۔
لاکھوں دلوں پر حکمرانی کرنے والے اِس شہنشاہ کے پاس ایک پرانی گدڑی تھی جس پر بیٹھ کر سارا دن احکام شریعت اور معرفت کے موتی بانٹتے رات کو اُسی پیوند لگی گدڑی کو سر اور جسم پر ڈال کر سو جاتے گڈری جسم پر پوری نہ آتی سر ڈھانپتے تو پائوں ننگے ہو جاتے پائوں پر ڈالتے تو سر ننگا ہو جاتا پائوں کو چھپانے کے لیے کو ئی دوسرا کپڑا ڈا ل دیا جاتا تکیے کے طور پر مرشد کا عصا سر کے نیچے لے لیتے جب دربار فرید آراستہ ہو تا تو پرانی چادر سے جسم کو ڈھانپ لیتے ‘ سلطان غیاث الدین بلبن آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھا اُس نے کئی بار ریشمی شاہی لباس تیار کر کے بھیجا لیکن آپ لوگوں کو دے دیتے سچ تو یہ ہے کہ پرانی چادر اور پیوند زدہ گدڑی پر بیٹھے اِس خاک نشین کے سامنے وقت کے سلطان غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے خوراک بہت تھوڑی اور سادہ تھی اجو دھن آنے کے بعد کتنے سال ”پیلو” جنگلی پھل پر گزارا کیا جب لنگر خانہ وسیع ہوا تو ہزاروں بھوکے سیر ہو کر کھانا کھاتے لیکن آپ پھر بھی روزے کا مسلسل اہتمام کر تے آپ زیادہ تر صوم دوام کے عادی تھے جس میں تیسرے دن روزہ رکھا جاتا ہے۔
شربت سے روزہ افطار کر تے جب پیش کیا جاتا تو تین حصے حاضرین میں ایک حصے سے خود افطاری کر تے جوار کے آٹے کی دو روٹیاں بنائی جاتیں اُن کے بھی تین حصے کئے جاتے دوحصے حاضرین میںایک آپ کو پیش کیا جاتا تا کہ جسمانی زندگی کو جاری رکھا جا سکے ‘ پچانوے سال تک آپ کی عبادت مجاہدہ ریاضت فاقہ کشی اِسی طرح جاری رہی یہ وجہ تھی کہ آپ پیکر نور تھے جو بھی آپ کی صحبت میں آتا کفر کے رنگ سے اسلام کے رنگ میںرنگا جاتا جب لوگ جوک در جوک آپ کے در پر آکر اسلام کے رنگ میں رنگنے لگے تو برہمنوں کو تشویش لاحق ہوئی کہ اُن کی ہزاروں سالہ پرانی حکومت ختم ہو نے جا رہی ہے اِس طرح تو ان کی رعایا اور ماننے والے ختم ہو جائیں گے انہوں نے آپ کا توڑ تلاش کر نا شروع کر دیا کہ کسی طرح بابا فرید کو شکست دی جائے ورنہ ہندو مذہب موت کی وادی میں گم ہو جائے گا اِس کے لیے ایک بہت طاقتور ماورائی قوتوں کا حامل جو گی تلاش کیا جو اپنے فن اور جادو میں کمال کا مقام حاصل کر چکا تھا اُس کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ آکر بابا فرید کو شکست دے وہ آیا اور آکر ہندوئوں کی رسم کے مطابق ہاتھ جوڑ کر زمین پر سر رکھ کر لیٹ گیا اب حاضرین انتظار کر نے لگے کہ کب یہ سر اٹھا کر اپنی آمد کا مقصد بیان کر ے گا۔
کافی دیر ہو گئی اُس نے سر نہیں اٹھا یا تو بابا فرید بولے اے مہمان اب سر اٹھا کر آنے کا مقصد بیان کرو لیکن جو گی تو جیسے پتھر کا ہو گیا تھا جوگی بار بار اٹھنے حرکت کر نے کی کو شش کر رہا تھا لیکن اُس کے جسم میںہلکی سی بھی جنبش نہیں ہو رہی تھی وہ بے بسی کی حالت میںپڑا تھا آخر کار بابا فرید اٹھے اُس کے پاس جاکر اُ س کا بازو پکڑ کر اُسے کھڑا کیا وہ اب بھی لڑکھڑا رہا تھا بابا جی بو لے جس نیت سے آئے ہو وہ بتا ئو اُس پر عمل کرو تو جو گی لرزتے ہونٹوں سے بولا جو آپ کے سامنے معمولی حرکت نہیں کر سکا وہ اپنے ارادے کو کیسے پو را کر ے گا بابا جی کو ہاتھ جوڑتے ہوئے بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا کہ مجھے معاف کر دیں پھر بابا جی کے پائوں سے لپٹ گیا اور بار بار کہنے لگا میںتو آپ کو لوٹنے آیا تھا خود ہی لٹ گیا میری ساری شکتیاں روحانی قوتیں ختم ہو گئیں ہیں میرا دامن باطن خالی ہو گیا ہے میری ساری زندگی کی کمائی لٹ گئی میںاب بھکاری ہوں جس کے ہاتھ دامن دماغ اب خالی ہو چکا ہے میں اب بھکاری ہو وہ جس کے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے ۔جو گی لٹے ہو ئے مسافر کی طرح بے بسی سے بابا جی کے قدموں سے لپٹا بتا رہا تھا کہ میں تو آپ کو لو ٹنے آیا تھا لیکن آپ نے میرا سب کچھ لوٹ لیا میں آپ جیسے شہنشاہ کو کیا لوٹ سکتا ہوں جو آپ کے سامنے معمولی سی حرکت بھی نہیں کر سکا اور کیا کر سکتا ہوں مجھے میری اوقات اور خالی پن کا پتہ چل گیا ہے میں اپنی شیطانی قوتوں کے بل بو تے پر ناقابل ِ تسخیر بنا پھرتا تھا کہ روئے زمین پر کو ئی بھی میری روحانی شکتیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن آپ نے میری اوقات مجھے یاد دلا دی اب میں کسی کام کا نہیں رہا اب میں کہیں نہیں جا سکتا تو بابا جی شیریں کلامی سے بو لے بتا اب تو کیا چاہتا ہے اب تیری کیا خواہش ہے تو جو گی بابا جی کے قدموں کو چومتے ہو ئے بو لا اب آپ کے قدموں سے لپٹا رہنا چاہتا ہوں۔
آپ کے در کا غلام بھکا ری رہنا چاہتا ہوں آپ مجھے بھی اپنے غلاموں میں جگہ دے دیں آپ کی غلامی آپ کی نوکری کرنا چاہتا ہوں بابا جی نے جوگی کو اٹھا یا گلے سے لگایا اور جوگی کے لبوں پر کلمہ طیبہ جار ی کر کے اُسے زیور اسلام سے آراستہ کر دیا کلمہ پڑھنے کے بعد جو گی نے بابا جی کے ہاتھ عقیدت احترام سے چومے اور یہ کہہ کر چلا گیا میرے شہنشاہ ابھی تومیں جا رہا ہوں لیکن بہت جلد پھر واپس آئوں گا ابھی میں کچھ قرضہ اتار نے جا رہا ہوں پھر وہ اجازت لے کر چلا گیا تو بابا جی نے بتا یا کہ یہ کس طرح ہندوں برہمنوں کے اکسانے پر مقابلہ کر کے مجھے شکست دینے آیا تھا لیکن جب اِس نے زمین پر سر رکھا تو میں نے حق تعالی سے درخواست کی اے پروردگار اِس کو اپنے سجدے میں تبدیل کر دے مالک نے میری دعا سن لی اور ایک کافر نورِ ایمان میں رنگاگیا جوگی نے جا کر برہمنوں کو اُن کے دئیے ہو ئے پیسے واپس کئے اور کہا میرا اُس شہنشا ہ سے کیامقابلہ وہ سورج میںچراغ بھی نہیں ‘ سورج کے سامنے دئیے کی کیا حیثیت ہے برہمنوں نے اُس سے پھر کہا تم اُس درویش کو شکست دو ہم تمہیں سونے میں تول دیں گے تو جو گی بو لا اگر تم ساری دنیا کے خزانے بھی میرے قدموں میں ڈھیر کرو تو پھر بھی فریدی غلامی گلے سے نہیں اتاروں گا مجھے بابا فرید کے قدم چومنے سے جو لذت ملی ہے اُس کے سامنے ساری دنیا کے خزانے کمتر ہیں میں ساری زندگی اپنے ہاتھوں تراشے بتوں کی پو جا کر تا رہا جو خود بھی حرکت پر قادر نہیں افسوس ساری زندگی گمراہی میں غرق رہا اُس فقیر کی نظر نے گمراہی کے سارے رنگ دھو کر نور حق کی روشنی دی پھر جو گی آکر بابا فرید کے غلاموں میں داخل ہو کر راہِ حق کی منزل کا مسافر ہوا اور پھر نور حق میں رنگا گیا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org