تحریر : عابد علی یوسف زئی اکیسوی صدی کے آغاز کے ساتھ جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں مین انقلاب برپا ہو گیا وہاں اسلام دشمن عناصر نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈوں میں کئی حتی الامکان کوششیں کی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اخبارات میں باقاعدہ محسن انسانیت، رحمت اللعالمین سے منسوب خاکے شائع کئے۔ فلمیں بنائی گئی۔ سوشل میڈیا پر توہین آمیزی پر مبنی مقابلے کرائے گئے۔ توہین رسالت پر مبنی پیجز بنائے گئے اور پیغمبر عالم کے شان میں گستاخانہ مواد کی پوسٹنگ کی گئی۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میںہو، خواہ تحریری، ظاہری شباہت/پیشکش،یا ان کے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے ان کے بارے میںبرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو، یا ان کو نقصان دینے والا تاثر ہو، یا ان کے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا ، ان سب کی موت ہے۔
قرآن پاک کے سورة الاحزاب کے آیت ٧٥ میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:( ترجمہ) بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ سورة التوبہ کے آیت نمبر ١٦ میں فرماتا ہے:( ترجمہ) رسول اللہ کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
اللہ تعالیٰ سورة التوبہ کے آیت نمبر ٢١ میںمزید فرماتا ہے:(ترجمہ)اگر یہ لوگ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے لیڈروں سے قتال کرو اس لئے کہ ان کی قسمیںقابل اعتبار نہیں ہیں تاکہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آ جائیں۔
Muhammad PBUH
توہین رسالت کے بارے میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی ارشادت موجود ہیں۔ صحیح بخاری کے باب الرہن میں ہے :(ترجمہ) حضرت عمروبن العاص روایت کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون کھڑا ہوگا کعب بن اشرف کے لئے، کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیفیں دی ہیں تو محمد بن مسلمہ اٹھ کھڑے ہوئے اور جا کر اس کو قتل کردیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے اس کو قتل کر دیا۔
اس حدیث کے ذیل میں فتح الباری نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ اور اسکے رسول کو اذیت پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے اشعار کے ذریعے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دی تھیں اور مشرکوں کی مدد کی تھی۔حضرت عمرو سے روایت ہے کہ یہ کعب بن اشرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور قریش کومسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا۔یہ یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے واسطے سے اللہ کو اذیت دیتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا اعلان کیا اور محمد بن مسلمہ نے اس کو قتل کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے قتل کی اطلاع دے دی۔
اسی طرح اصح السیرصفحہ ٦٦٢ میں حدیث مبارکہ ہے : (ترجمہ) حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک پر خود پہنا ہوا تھا۔جب آپ نے خود اتارا تو ایک آدمی اس وقت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردو ں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو قتل کردو(صحیح بخاری)۔ ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے کیلئے کہا کرتا تھا،تو اسکے کل تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح الدم قرار پایا ، اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا حضور صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ دراصل اشعار ابن خطل کے ہوتے تھے اور اس کو عوام کے سامنے گانے والی اس کی دو باندیاں تھیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ گستاخی ناموس رسالت کی اشاعت میں مدد کرنے والے کو بھی قتل کا جائے گا۔ قانون توہین رسالت کے تحت کسی معافی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ ہر صورت گستاخی کرنے والے کو قتل کیا گیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا محرمات میں سب سے عظیم ترین گناہ ہے اور علما کا اِجماع ہے کہ ایسا کرنے والا کافر اور مرتد ہو جاتا ہے۔ چاہے اس نے یہ کام سنجیدگی سے کیا ہو یا مذاق اور مزاح میں۔ اور ایسا کام کرنے والے کی سزا، چاہے وہ مسلم ہو یا کافر، قتل ہے۔ اگر اس نے سچے دل سے توبہ نصوحہ کی ہو گی اور اپنے کئے پر پشیمان ہوا ہو گا تو یہ توبہ اسے روزِ قیامت فائدہ دے گی اور اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا، لیکن دنیا میں وہ بہر حال قتل ہو گا۔