ایک وقت اس قوم پر وہ بھی آیا جب کوئی سندھی نہیں تھا ،کوئی بلوچی نہیں تھا، کوئی پٹھان نہیں تھا ،کوئی بنگالی نہیں تھا سب ایک قوم تھے سب پاکستانی تھے برسوں کی عداوتیں ،سالوں کی کدورتیں سب ہی کچھ تو ختم ہو گئی تھی سب ایک تھے سب کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا ،مذہب ایک تھا، کعبہ ایک تھا، قرآن ایک تھا،عزم ایک تھا،مقصد ایک تھا ،منزل ایک تھی جب ان میں یہ احساس زندہ تھا کہ وہ ایک قوم ہیں ایک مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔
ایک خدا کے ماننے والے ہیں ایک رسول ۖکے نام لیوا ہیں ایک قرآن کے پیروکار ہیں سب اسلام کے اٹوٹ رشتے سے منسلک ہونے کے ناطے مسلمان ہیں اور ایک دوسرے کے اسلامی بھائی اور اپنے اسی جذبے کی پختگی کی بدولت اسی احساس کی بدولت ان میں تعصب تھا نہ صوبائی عصبیت تھی نہ ذاتی مفاد پرستی تھی نہ چار قومیتوں کا پرچار تھا سب ایک تھے برصغیر کے کروڑہا مسلمان اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایک الگ اور آزاد خطہ پاک حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھے ان کے نزدیک کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ قوم کا مفاد اہم تھا اور وہ قومی مفاد کے حصول کیلئے بڑی سرگرمی سے کوشاں تھی ان کے ارادوں میں حصول آزادی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا جذبہ موجزن تھا۔
جوش و جذبے اور ارادے کی پختگی کی بنیادپر برصغیر کے کروڑہا مسلمانوں نے غلامی کی ذلت آمیززنجیروں کو توڑنے کیلئے ایک آزاد مملکت کے حصول کیلئے ایک قرارداد منظور کی تھی اور 23مارچ کی تاریخ ساز اجلاس میں کئے گئے عہد کو پورا کرنے کیلئے وہ اپنے قائد اپنے رہبر اور اپنے رہنما کی رہنمائی میں ایک وطن کو حاصل کرنے کی جستجومیں اپنی منزل کی جانب گامزن ہو گئے اور آزادی کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کا بڑی تندہی سے مقابلہ کیا ظلم کے تیر چلے،جیلوں کے دروازے کھلے،مشکلات سے مقابلہ ہوا مصائب سے سامنا ہوا تکلیفوں کے وار سہے قیدو بند کے مرحلوں سے گزرے ظلم کی دیوی کی بارگاہ میں تن من دھن کی قربانیاں دیں۔ یہ سفر طویل بھی تھاا ور کٹھن بھی مگر ایک خدا کے ماننے والے ایک رسول ۖ کے نام لیوا،اسازشوں کے جال میں نہیں پھنسے بلکہ وہ دشمن کے سامنے ایک عظیم دیوار بن گئے اللہ کی اور اللہ کے نام کی حرمت پر کٹ مرنے والوں کا جوش لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا گیا۔
ظلم و بربریت نے حصول مقصد کی لو کو کچھ اور بڑھکا دیا۔ انسانیت سوز مظالم نے قربانیاں دینے کا جذبہ اور شدید کر دیا مخالف قوتوں کی سازشوں نے ارادوں کو پختہ کر دیا اور یہ طول تکلیف دہ، کٹھن اور صبر آزما سفر اتحاد، اتفاق اور تنظیم کی مشعل کی روشنی میں طے ہوتا چلا گیا۔ مشکلیں سمٹیں، تکلیفوں نے راستہ دیا، مصائب کا خاتمہ ہوا ،اور باطل نے حق کے سامنے ہتھیار ڈال دئے اجالے تاریکیوں پر غالب آگئے۔ جذبات کی صداقت ارادوں کی پختگی اور عزم کی آہنیت کام آئی برصغیر کے مسلمانوں کی جدو جہداور قربانیاں کام آئیں شہیدوں کا لہو رنگ لایا۔
اور آزادی کا یہ کارواں بالآخرمنزل مقصود پر پہنچ گیا اور جب 14 اگست 1947 کو ایک نئی مملکت وجود میں آئی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان بن گیا۔ پاکستان اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس سے پوری دنیا واقف ہے اور ایسے آزمائشی دور میں ہماری آپس کی رنجشیں ،کدورتیں اور اختلاف ہمارے لئے جس قدر مہلک ہیں اس سے بھی ہر ایک واقف ہے پھر ایسے حالات میں ہمیں یہ کہاں زیب دیتا ہے کہ ہم اپنے آپس کے اختلات کو روا رکھیں۔ وقت کا تقاضاتو یہ ہے کہ ہم رنگ و نسل لسانی اور صوبائی تعصبات اور دوسرے تمام اختلافات ختم کر کے یکجا ہو جائیں۔ آج ایک پارٹی یا فرقے کی دوسرے سے نفرت اور تعصب دیکھ کر یہ گمان ہو تا ہے جیسے یہ قوم کبھی یکجا ہوئی ہی نہ ہویہ رنگ و نسل کے مسئلے یہ صوبے پرستی یہ زبان پر اختلاف اور یہ قومیتوں کا پرچار اور ایک قوم کی دوسری قوم سے نفرت یہ تعصب ہمیشہ سے اس قوم کا طرہ امتیاز نہ تھا۔
Islamic law
ہم لوگ قیام پاکستان کا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ، ہم لوگ اس کو حاصل کرنے کے مقصد کو بھول چکے ہیں ابھی بھی وقت ہے ہم سوچیں کہ کیا قیام پاکستان کا یہ مقصد تھا یہاں چوری، ڈاکہ اور قتل و غارت عام ہو دہشت گردی کا راج ہو ،بدمعاش ہیرو ہوں ،جس ملک میں بیٹیوں کی عزت لٹ رہی ہو اور ان کی سنوائی بھی نہ ہو، اور یہ سب روز کا معمول ہو ذمہ داروں کو سزا بھی نہ ملے ،جہاں ذاتی قید خانے ہوں ، غرور ،تکبر،جھوٹ پر فخر کر نے کا رواج ہو کرپشن ،رشوت ،بے ایمانی و ملاوٹ کا عام ہو۔فرقہ واریت کو دین و مذہب سمجھا جائے ایسا پاکستان تو ہمارا نصب العین نہ تھا ۔ ہمارے ملک میں وہ آئین(اسلامی شریعت) نافذ نہ ہو سکا جس کے مقصد کو سامنے رکھ کر جہدوجہد کی گی تھی۔
ملک میں ایسے حکمران اقتدار میں آئے جن میں سے اکثریت امریکہ و برطانیہ کی ذہنی غلام تھی اور آج جس مقصد کے لیے قیام پاکستا ن کے قیام کے لیے ہمارے بزرگوں نے جان ،مال ،عزت کی قربانیاں دیں تھیں وہ نصب العین ہم بھول گئے۔ اسلام کے نفاذ کے لیے اسلامی قلعہ بنانے کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ ہمارے قائد نے فرمایا تھا ،ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔