اسلام اور مہاجرین مخالف جرمن پارٹی اب یورپی پارلیمان کے خلاف

Party Convention

Party Convention

جرمنی (جیوڈیسک) جرمنی میں اسلام اور مہاجرین کی آمد کی مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی اب یورپی پارلیمان کے بھی خلاف ہو گئی ہے۔ پارٹی کے ایک کنوینشن میں یہ رائے سامنے آئی کہ یورپی پارلیمان غیر ضروری ہو چکی ہے، جسے ختم کر دیا جانا چاہیے۔

جرمنی میں لاکھوں مہاجرین اور غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانی حالات کے پس منظر میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کافی عوامی تائید حاصل کر لینے والی یہ جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (AfD) یا ’جرمنی کے لیے متبادل‘ کہلاتی ہے۔ اپنی سیاسی سوچ کے لحاظ سے یہ پارٹی کافی حد تک انتہائی دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاسی جماعت ہے۔

اس جماعت کا ایک ملک گیر کنوینشن اس وقت شہر ’رِیزا‘ میں ہو رہا ہے، جہاں اس اجتماع کے مندوبین کی بڑی تعداد کی طرف سے اتوار تیرہ جنوری کو یہ رائے سامنے آئی کہ یورپی پارلیمان ’غیر ضروری‘ ہو چکی ہے، جس کے خاتمے کے لیے کوششیں کی جانا چاہییں۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس کنوینشن میں اے ایف ڈی کے مندوبین نے اپنے مستقبل کے جس سیاسی ارادے کا اظہار کیا، وہ دراصل حقیقت اور خواہش کے درمیان ایک بڑے فرق اور قول و فعل کے تضاد کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس کنوینشن میں یورپی پارلیمان کو ’غیر ضروری‘ اور ’عضو معطل‘ قرار دیا گیا، وہی اجتماع اسی یورپی پارلیمانی ادارے کی آئندہ رکنیت کے لیے اپنے ممکنہ امیدواروں کے انتخاب کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے۔

جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔

اے ایف ڈی کا یہ ’یورپی کنوینشن‘ جمعہ گیارہ جنوری کو شروع ہوا تھا، جو پیر چودہ جنوری تک جاری رہے گا۔ اس پارٹی اجلاس میں مندوبین کو اپنی جماعت کی یورپ اور یورپی یونین سے متعلق سیاست کے رخ کا تعین بھی کرنا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اسی اجلاس میں ان امیدواروں کے ناموں کا حتمی انتخاب بھی کیا جانا ہے، جو اس جماعت کی طرف سے 26 مئی کو ہونے والے آئندہ یورپی پارلیمانی انتخابات میں جرمنی سے امیدوار ہوں گے۔

اس پارٹی نے اسی یورپی پارلیمان کو اپنے طور پر ’عضو معطل‘ قرار دے دیا، جس کے رکنیت کے لیے اسے اپنی صفوں میں سے بہت سے سیاسی چہروں کی تلاش ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کنوینشن میں یہ بات بھی کہی گئی کہ جرمنی کو برطانیہ کے بریگزٹ (Brexit) کی طرز پر اپنے لیے ڈیگزٹ (Dexit) کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔

اس Deutschland Exit یا Dexit سے مراد یہ تھی کہ جرمنی کو بھی آئندہ یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے اور اے ایف ڈی اس کے لیے اپنی سیاسی مہم 2024ء میں شروع کرے گی۔ لیکن کنوینشن کی ایک ممکنہ قرارداد کے طور پر اس تجویز کو مندوبین کی اکثریت کی تائید حاصل نہ ہو سکی اور یوں اس پارٹی نے ابتدائی طور پر اس نام نہاد ’ڈیگزٹ‘ کے بارے میں جو کچھ بھی سوچا تھا، اس سے متعلق اس اجلاس میں ہی خاموشی اختیار کر لی گئی۔

آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔

انتہائی دائیں بازو کی اس جرمن سیاسی جماعت نے یورپی پارلیمان کو ’غیر ضروری‘ یہ کہتے ہوئے قرار دیا کہ اپنے ’موجودہ 751 مراعات یافتہ ارکان‘ کے ساتھ یہ یورپی پارلیمانی ادارہ، جس کے اجلاس برسلز اور اسٹراسبرگ میں ہوتے ہیں، ایک ’غیر جمہوری‘ ادارہ بن چکا ہے۔ آیا یہ موقف واقعی اس پارٹی کا باقاعدہ سیاسی موقف ہے، اس بارے میں کنوینشن کے مندوبین کے مابین رائے شماری آج اتوار ہی کی رات ہو رہی ہے۔

ساتھ ہی اسی کنوینشن میں مندوبین کی طرف سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ یورپی یونین کی پارلیمان کے بجائے ایک ایسی یورپی اسمبلی تشکیل دی جانا چاہیے، جس کے ’مندوبین‘ کی تعداد زیادہ سے زیادہ 100 ہو۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اس کنوینشن کے شرکاء اپنی باہمی مشاورت اور بحث و مباحثے کے شروع کے پورے دو دنوں یعنی کل ہفتے کی رات تک تو اس سلسلے میں کسی بھی اتفاق رائے تک پہنچنے کے عمل میں شدید مشکلات کا شکار رہے کہ یورپی پارلیمانی انتخابات کے لیے اے ایف ڈی کے پارٹی امیدواروں کی فہرست میں کس کس کو جگہ ملنا چاہیے اور کس کس کو نہیں۔