بھارت میں انتہا پسندہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں مسلمان، درجنوں ہندو لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد انھیں محبت کے جال میں پھنسا رہے ہیں اور ان کا واحد مقصد انھیں ہندو سے مسلمان بنانا ہے۔مسلمان مرد اور ہندو لڑکی کی شادی کو ’لوجہاد‘ کا نام دیا جاتا ہے جب کہ ہندو لڑکی اگر مسلم لڑکے سے شادی کرے تو اسے ’قومی یک جہتی‘ قرار جاتا ہے۔ یہ منفی پروپیگنڈا کئی برسوں سے سے عروج پا رہا ہے، اس حوالے سے ایک اجتماعی شادی پر بھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کو کیرالہ میں بین المذاہب شادیوں کی تحقیقات کی تھی لیکن انہیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکوں سے شادی کرنے اور مذہب اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ایجنسی کے اہلکاروں کے مطابق اُنہیں ان معاملات میں قانونی کارروائی کرنے کے لیے کسی بڑی سازش کے شواہد نہیں ملے۔این آئی اے نے 89 شادیوں میں سے 11 کی جانچ کی،سپریم کورٹ نے لو جہاد کے معاملات کی جانچ کا حکم دیا تھا۔ یہ حکم کیرالہ کی ایک 24 سالہ خاتون ہادیہ عرف اکھیلا کی ایک مسلم نوجوان شافعین جہاں سے شادی کے تناظر میں دیا گیا تھا۔
لو جہاد کے منفی پروپیگنڈے کا اثر مودی سرکار میں مزید انتہا پسندی کا شکار ہورہا ہے، اس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں ایک بڑے کاروباری گروپ نے اپنے سونے کی مصنوعات کا اشتہار نشر کرایا تو اس پر انتہا پسند ہندو بھڑک اٹھے، یہاں تک کہ بالی وڈ فنکاروں نے بھی لو جہاد کے نام سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، جس کا اندازہ اداکارہ کنگانا راناؤت کے اس دعوی سے کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ یہ (اشتہار)”لوجہاد اور جنس پرستی“ کو بڑھاوا دے رہا ہے۔انہوں نے ٹوئٹ کیاکہ”بطور ہندو ہمیں اس بات کے لئے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کہ کیایہ تخلیقی دہشت گرد ہماری لاشعوری میں کیاانجکشن لگارہے ہیں‘۔ہمیں اس بات پرغور کرنے بحث کرنے او راندازہ لگانے کی ضرورت ہے یہ لوگ جو ہمیں کھلارہے ہیں اس کا نتیجہ کیانکلنے والا ہے‘ ہماری تہذیب کوبچانے کا یہی ایک راستہ ہے“۔
بھارت میں یک بار پھر لو جہاد کے منفی پروپیگنڈے پر مودی سرکار نے ایک بار پھر ہندو انتہا پسندی فروغ دیا۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے مشیر برائے اطلاعات شلبھ منی ترپاٹھی نے بھی اس معاملے میں سوال کیا ہے کہ یہ ‘لو جہاد نہیں تو اور کیا ہے؟‘۔ہندو انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل سمیت بعض تنظیمیں ان واقعات کو ’لو جہاد‘ کا نام دے کر ان شادیوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اس قسم کے معالات پر چند نوجوان لڑکیوں نے شادیاں کیں تھی جس پر ان کے اہلِ خانہ نے اس معاملے میں کانپور رینج کے انسپکٹر جنرل پولیس موہت اگروال سے ملاقات کی جس کے بعد آئی جی سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔آئی جی موہت اگروال نے کہا کہ اگر ان واقعات میں کوئی قصوروار پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔حکام کے مطابق کانپور کے علاقے باڑہ کی نوجوان لڑکی شالنی یادیو نے گذشتہ ماہ کانپور کے رہائشی محمد فیصل نامی نوجوان سے شادی کی تھی۔ شادی کے بعد شالنی کے اہل خانہ نے فیصل کے خلاف اپنی بیٹی کو اغوا کرنے کی رپورٹ لکھوائی تھی۔لیکن اس دوران شالنی اور فیصل نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ شادی انھوں نے اپنی مرضی اور پسند سے کی ہے اور پولیس سے اپیل کی کہ وہ ان کو یا ان کے اہل خانہ کو پریشان نہ کریں۔
فرانسیسی نیوز اے ایف پی کے ایک جائزے شائع ہوا، جس میں لکھا ہے کہ ”قومی میڈیا پر شمالی ریاست اُتر پردیش کی ایک بیس سالہ لڑکی کو دکھایا گیا، جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور جو یہ بتا رہی تھی کہ اُسے اغوا کرنے اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اگرچہ گزشتہ ہفتے اسی خاتون نے ہنگامہ خیز انداز میں اپنے تمام الزامات یہ کہتے ہوئے واپس لے لیے کہ اُس کے گھر والوں نے اس پر دباؤ ڈال کر من گھڑت کہانی سنانے کے لیے کہا تھا۔
”لو جہاد“ کی اصطلاح 2009ء میں اُس وقت سامنے آئی جب ایک ہندو انتہا پسند تنظیم نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاست کرناٹک میں تیس ہزار خواتین کو مسلمان بنا لیا گیا ہے۔ سوا ارب کی آبادی کے حامل بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 150 ملین کے لگ بھگ ہے اور انتہا پسندہندوؤں کا الزام ہے کہ مسلمان اپنی اس ”خفیہ مہم“ کے ذریعے سیکولر بھارت کو ’اپنا‘ملک بنانا چاہتے ہیں۔”اینٹی لو جہاد فرنٹ“ نے ایک پمفلٹ شایع کیا تھا،جس کا متن کچھ ایسا ہے کہ”ہندو بھائیوں سے اپیل۔ جاگو ہندو جاگو! لوجہاد سے سودھان، مسلم لڑکے ہندو نام رکھ کر اور ٹیکا لگا کر ہندو لڑکیوں کو جال میں پھنساتے ہیں۔ان کا دھرم پرورتن (بدل) کر کے شادی کرتے اور بچے پیداکرتے ہیں، ایوم (نیز) شریرک ومانسک سوشن (جسمانی و ذہنی استحصال) کر کے انھیں چھوڑ دیتے ہیں“۔بی جے پی بھی ”لوجہاد“ نے اپنی سیاسی قرارداد کی منظور میں حیرت انگیز دعوی کیا تھا کہ ”ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ریپ کا شکار بنایا جا رہا ہے اور ریپ کرنے والوں کا تعلق ایک خاص مذہب سے، یاتو یہ محض اتفاق ہے یا یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے اور اس پر پارٹی کو تشویش ہے۔“ ہندو انتہا پسند تنظیموں ’آر ایس ایس‘ ہندو جن جاگرن سمیتی وغیرہ کے مسلمانوں کے ساتھ بغض کا اندازہ ”لو جہاد“ نامی ایک کتاب سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جو انتہائی قابل اعتراض اور نفرت انگیز ہے، جس کے ذریعے بھارت ہی میں نہیں دنیا بھر میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی سازش کی گئی۔
درحقیقت مسلم لڑکی، ہندو لڑکا شادی کے تصورکو بھارتی فلموں کے ذریعے اس قدر پھیلایا گیا کہ، مسلم نوجوان کسی ہندو لڑکی کی کے مذہب کی تبدیلی کے بغیر بھی شادیاں کرنے لگے ہیں اور اسے معیوب نہیں سمجھتے، مسلم نوجوان ’دین اسلام‘ کی واضح ہدایت کے باوجود کسی بھی مشرک لڑکی کو بطور بیوی، اپنانے اور اس سے بچے پیدا کرنے کو معیوب نہیں سمجھتا، لیکن جب کوئی ہندو لڑکی مسلم ہو کر کسی مسلمان لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو اسے ہندو دھرم کے خلاف سازش اور”لوجہاد“‘ کا نام دیکر ہندو انتہا پسندمسلمانوں کے خلاف ننگی تلوار بن جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ مشہورکرکٹر عرفان پٹھان جو ایک موذن کا بیٹا ہے اس نے ایک ہندو لڑکی سے اس کا مذہب تبدیل کیے بغیر شادی کی اور ازدواجی زندگی گزار رہا ہے، شاہ رخ خاں کے گھر میں مندر اور نماز کے لیے مختص جگہ بھی۔ سیف علی خان اقرار کرتے ہیں کہ کرینہ کپور نے اسلام قبول نہیں کیا وہ اب بھی ہندو ہیں۔
ہمارے بعض معترضین اور دانشور یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ کیا مسلم نوجوان اتنا خوبرو ہے کہ ہندو لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہو کر مسلمان ہو جاتی ہے کیا ہندو لڑکے خوبرو نہیں ہوتے۔ عام لڑکی لڑکوں کے بجائے مشہور مثالیں ہمارے سامنے ہیں نہ جانے معتصب دانش وروں کو یہ کیوں نظر نہیں آتیں۔ مثال کے طور پر سنیل دت نے نرگس سے شادی کی، کرشن چندر نے سلمی صدیقی سے، ریتک روشن نے سوزانے خان سے، اتل اگنی ہوتری نے الویرا خان سے، روہت راجپال نے لائیلہ خان سے، اجیت اگارکر نے فاطمہ دھندلی سے، سچن پائیلٹ نے سارا عبداللہ سے، ارون آہوجہ (گویندہ کے والد) نے نجمہ سے، شرش کندر نے فرح خان سے، ارون گاؤلی نے عائشہ سے، منوج واجپائی نے شبانہ رضا سے، پنکج کپور نے نیلما عظیم سے، گنودینشین راؤے نے تبسم سے، ششی ریکھی نے وحیدہ رحمان سے، راج ببر نے نادرہ ظہیر سے، کرنل سودھی نے نفیسہ علی سے، میورواد دھونی نے ممتاز سے، رندھاوا نے لیکا خان سے، وشنو بھاگوت نے نیلوفر سے، کشور کمار نے مدھو بالا (ممتاز) سے، وی ایس نائیپال نے نادرہ سے، کبیرسومن نے سبینہ یاسمین سے، بی آر اشارہ نے ریحانہ سلطانہ سے، سمیر بیرورکر نے تسنیم شیخ سے، انوراگ مودی نے شہناز سے، ایم ایس ستھو نے شمع زیدی سے، روی شنکر نے روشن آراء سے، پردیب چیرین نے فوزیہ فاطمہ سے، پنکج ادھاس نے فریدہ سے، کے این سہائے نے زاہدہ حسین سے، بریج سدانا نے سعیدہ خانم سے، نرمل پانڈے نے کوثر منیر سے، وجے گوئل نے تبسم سے، امیت موئترا نے ناہیدکریم سے، روپ کے شوری نے شمشاد بیگم سے، کے ٹی سپرو نے تاجور سلطانہ سے، رمیش باگوے نے زینب سے، منیش تیواری نے نازنین سے، سیتا رام پوری نے سیما چشتی سے، سمیت سہگل نے شاہین سے شادیاں کیں، لمبی چوڑی مزید فہرست بھی ہے، اصل بات یہ ہے کہ ا ن شادیوں کو تو یہ لوگ رزشٹر ایکا تمتا (قومی یکجہتی) کا نام دیتے ہیں لیکن جب ہندو لڑکی کسی مسلمان سے شادی کر لے تو اسے ’لوجہاد‘ قرار دیا جاتا ہے۔ آپ کی دلچسپی کے لیے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بی جے پی کے نام نہاد مسلم چہرہ شاہنوازحسین اور مختارعباس نقوی کی بیویاں بھی ہندو ہیں، اس پر کبھی بی جے پی نے واویلا نہیں کیا۔
دراصل یہ برصغیرکی تاریخ کا حصہ رہا ہے، جس کی سب سے بڑی مثال اکبر اعظم اور ان کی ہندو بیوی، ملکہ جودھا کو ہم کیوں بھول جاتے ہیں۔ دراصل یہ برصغیر (پاک و ہند) میں سیاسی مقاصدکے تحت زہریلا عنوان بنا کر کی جانے والی سازش ہے۔ بعض افراد اور دانشور یہ کہتے ہیں کہ ایسا غریب ہندوؤں کے ساتھ کیوں ہوتا ہے تو اس کا جواب ماضی میں راجھستان کے وزیر کا ایک مسلمان لڑکی سے شادی کر کے خود مسلمان بن جانے کی مثال موجود ہے، یہ عشق ومحبت کے نام رچایا جانے والا جذباتی کھیل ہے جیسے نہ کوئی روک سکا ہے اور نہ روک سکے گا، عشق ومحبت کے نام پر بے راہ روی اختیارکرنے والے مذاہب کی حدود و قیود سے تجاوزکرتے رہیں گے۔وہ اس عشق کی بازی کو مذہب کے نام پر نہیں روک سکتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی بھی مذہب کی لڑکی یا لڑکے ساتھ، اغوا یا زیادتی کے واقعات،کسی بھی جانب سے نہیں ہو سکتے۔ یقینی طور پر ایسے واقعات بھی ہوتے ہونگے جس کی بیخ کنی حقائق کی روشنی میں ضروری ہے، بہرحال یہ ایک جذباتی و بے راہ روی کا معاملہ ہے جس میں ہندو یا اسلام مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔