اسلام: پر امن اور سلامتی والا دین ۔٣

Kashmir War

Kashmir War

تحریر : میر افسر امان

ہم گزشتہ دو کالموں میں میں بیان کر چکے ہیں کہ غیرمذاہب میں انسان کی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی۔جبکہ اسلام نے کسی انسان کی جان لینا گویا ساری انسانیت کی جان لینا اور کسی انسان کی جان بچانا گویا پوری انسانیت کی جان بچانے کا کہا ہے۔ اسلام نے صرف حق کے ساتھ کسی انسان کی جان لینے کی اجازت دی ہے۔ اگر کسی نے کسی انسان کو بغیر حق کے قتل کیا ہے تو اس کے بدلے میں اس کی جان لینے کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ انصاف کایہ تقاضہ ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو دنیا ظلم سے بھر جائے۔ اس کے سد باب کے لیے سرکش قوموں کے خلاف مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے سرکشوں کو صحیح راستے پر لایا جاتا ہے۔ اب اس آخری کالم میں ہم پر امن اور سلامتی والے دین اسلام کے پیروں کے ساتھ دنیا میں بے انصاف حکومتوں کے روا رکھے جانے والے ظلم و ستم کی کہانی اور اسلام کی روشنی میں اس کا حل کر بیان کریں گے۔

مدینے کی اسلامی ریاست ، خلفائے راشدین کے دور میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جہاد فی سبیل اللہ پر سختی سے عمل کیا گیا۔اس کے بعد مسلمانوں میں بنوامیہ،بنو عباس اور آخر میں عثمانی خلفاء نے بھی اس پر عمل کیا۔پھردنیا کے غالب حصہ میں پر امن اور سلامتی والے دینِ اسلام نے جھنڈے گھاڑ دیے تھے۔جہاد فی سبیل اللہ کی برکت سے اُس وقت کی معلوم دنیا میں سرکش قومیں رائے راست پر آگئیں تھی۔مسلمان دنیا پر بارا سو سال عدل و انصاف اورکامیابی سے مختلف تہذیب، تمدن، ثقافت اور معاشروں والے ہزاروں قوموں پراسلام کے عدل اور انصاف والے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر حکومت کرتے رہے۔اس دور میں تعلیم، سائنس اور دسرے علوم میں شاندار ترقی ہوئی۔ان ہی علوم کی بنیاد پر بعد میں یورپ نے ترقی کی منازلیں طے کیں اور مسلمانوں پر حکمرانی کی ۔ صلیبیوں نے پہلے مسلمانوں کی کمزوریوں سے فاہدہ اُٹھا کر قومیتوں میں تقسیم کیا۔ ١٩٢٤ء میں مسلمانوں کی عثمانی سلطنت کو صلیبیوں نے ختم کیا اور مسلمانوں کو قومیتوں کی بنیاد پر درجوں ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ مسلم عوام پراپنے پٹھو حکمران مسلط کیے۔ یہ پٹھو حکمران اب تک مسلم دنیا پر مسلط چلے آرہے ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں مسلمان اقلیتوں کی حیثیت سے بھی رہ رہے ہیں۔ جو حقوق مسلمانوں نے غیر مسلم اقلیتوں کر دیے تھے اب غیر مسلم حکومتوں میں وہ مسلمانوں کو حاصل نہیں۔ صلیبیوں نے اپنے پٹھو حکمرانوں کے ذریعے مسلمان ملکوں میں عوام کے اسلامی حقوق پر ڈاکہ ڈالا۔ مصر میںاخوان المسلومون کے مرسی شہید کی منتخب کو فوج کے ذریعے ختم کیا۔ الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی منتخب حکومت کو فوج کے ذریعے ختم کیا۔جب عرب بہار آئی اور مسلمان عوام نے اپنے حقوق کی بات کی تو اپنے پٹھووں کے ذریعے ہنگامے کروا کے لیبیا،شام، مراکش، یمن اور بحرین کو تباہ کر دیا۔روس میں چیچنیا، چین میں سنکیاک ،بوسنیا ہرگو ینگوونیا،میانمار(برما)،فلپائین وغیرہ میں مسلم اقلیتوں پر مظالم کے پہاڑو توڑے جا رہے ہیں۔ اپنے پڑوسی ملک بھارت کی بات کریں تو مسلم ہندوستان میں ہندو اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرتے تھے۔ ان کی عبادت گائیں محفوظ تھیں۔محمد بن قاسم ثقفی سے لے کے مغلوں کے دور تک ہندوئوں کے حقوق کاخیال رکھا جاتا تھا۔اسلام کی روداری ہی تھی کہ اس دور میں کروڑوں ہندو مسلمان ہوکر پر امن اور سلامتی والے دین اسلام میں داخل ہوئے۔ اس کے بعدانگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ انگریز کے ہندوستان چھوڑنے کے وقت مسلم اور ہندو علاقوں ، بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برٹش ہند، پاکستان اور بھارت کی دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہوا۔ تقسیم کے فارمولے سے مسلم اکثریت والے کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا تھا۔

بھارت نے اپنی فوج کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔آج بہتر سال ہو گئے ہیں کہ کشمیر بھارت کا ناجائز قابض ہے۔لاکھوں کشمیریوں کو شہید کردیا۔ بھارتی قابض فوجیوں نے ہزاروں مسلمان کشمیری خواتین کی اجتمائی آبرو زیزی کی۔ اس کو اقوام متحدہ میںبیان کرتے ہوئے ایک انصاف پسند غیر مسلم تک نے بھی آنسو بہائے۔ہزاروں کشمیری قید ہیں۔ درجنوں لا پتہ کر دیا گیا۔درجنوںاجتمائی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔کشمیر کی تجارت کو ختم کر دیا گیا۔ان کے مکانوں، دوکانوں اور زری زمینوں پر گن پائوڈر چھڑک کر خاکستر کر دیا گیا۔ نوجوانوں کوجیل میں زہریلی خورا ک کھلا کر آپائچ کردیا۔ کشمیر کے بازاروں میں چلتی پھرتی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔میری ذاتی لائیبریری میں ان مظلوم کشمیری نوجوانوں اور جن خواتین کی آبرو ریزی کی گئی ہے کی تفصیل اورتصاویروں پر مشتمل کتابیں موجود ہیں۔اب آخری کارڈ کھیلتے ہوئے بھارت کے آئین میں موجود خصوصی حیثیت کی دفعہ ٣٧٠اور ٣٥۔اے کو ختم کر دیا گیا۔ کشمیر کی مسلم آبادی کو ختم کر کے ہندو اکثریت بنانے کے لیے یہ کیا گیا۔ کشمیری احتجاج کر رہے ہیں ایک ماہ سے سخت کرفیوں لگا ہوا ہے۔ اندر کا ظلم سامنے نہیں آرہا ۔کشمیری کرفیو توڑ کر فوج پر پتھرائو کرتے ہیں۔ نعرے لگاتے ہیں بھارت کشمیر سے نکل جائو۔ ہم پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔

صاحبو!آخر ان سارے مظالم کا حل کیا ہے۔ ان کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمان اپنی اصل پر واپس آجائیں۔ وہ اصل یہ ہے کہ قومیتوں کی نفی کریں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں

٢
فرماتا ہے کہ قومیتیں تو صرف پہچان کے لیے ہیں۔ ان میں اللہ کے نذدیک وہ ہی بہتر ہے جس میں تقویٰ ہے۔ وہ ہی اللہ کا پسندیدہ ہے۔ سب مسلمان اللہ کی رسی کو پھر سے مضبوطی سے پکڑ لیںجیسے شروع کے مسلمانوں نے پکڑی تھی۔ جب مسلمان قرآن اور رسولۖاللہ کے حکم پر عمل کرتے رہے۔ ساری دنیا پر حکمرانی کرتے رہے۔ جب مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کرتے رہے تو دنیا کے خزانوں کے مالک بن گئے تھے۔اسی بھولے ہوئے سبق کو پھر سے یاد کرکے آگے بڑھنا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلہ کی بات کی جائے تو یہ مسئلہ بات جیت اور مذکرات سے حل نہیں ہوگا۔ کشمیر کے مسئلہ پر ١٩٤٧ء سے آج تک سیکڑوں دفعہ مذاکرات ہوچکے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہند ومسلمانوں سے اپنی ہزارا سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔پاکستان اور ارد گرد کے ممالک کو ملا کر اکھنڈ بھارت بنانے کے ڈاکٹرائین پر عمل کر رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کو قومیت کی بنیاد پر پاکستان سے علیحدہ کیا۔ اب سندھ میں مہاجر قومیت،بلوچستان میں بلوچ قومیت، خیبر پختون خواہ میں پشتون قومیت کی بنیاد پر پاکستان کو توڑنے پر عمل کر ہا ہے۔

ساتھ ساتھ پاکستان کو معاشی طور پر کنگلا کر کے پکے ہوئے پھل کے طور پر اپنے جھولی میں گرنے کا انتظار کرر ہا ہے۔ اس سے قبل کہ بھارت اپنی سازش میں کامیاب ہوئے اورخدا نہ خاستہ پاکستان کے مذید ٹکڑے ہو جائیں اور حکمرانوں کی حکمرانی بھی ختم ہوئے۔ اللہ کرے اگر ہمارے حکمرانوں کو یہ سازش سمجھ آجائے۔ الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم موت سے نہیں ڈرتے۔ حکومت پاکستان کو علماء سے مشورہ کر کے پہلے پاکستان کے نام پر عوام سے بیت لی جائے۔ جب بیت مکمل ہو جائے تو ریاست پاکستان جہاد کا اعلان کر دے۔ بھارت کو نوٹس دیا جائے کہ وہ پاکستان بارے اپنے ڈاکٹرائین سے رجوع کرے۔ خود بھی جیے ہمیں بھی جینے دے۔ کشمیر میںاپنے وعدوںاور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے ۔ کشمیری آزاد رائے سے فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوناچاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ شامل ہونا چایتے ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں پر ظلم بند کرے۔

بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حقوق دے۔ہم تاریخ اور خاص کر اسلامی تاریخ کے طالب علم ہیں۔لکشمی ،یعنی دولت کا بجاری بھارت گھٹنے ٹیک دے گا۔ اسے محمد بن قاسم،غوری اور بابر یاد آ جائیں گے۔ بھارت میں اب بھی انصاف پسنداور امن پسندکثیر تعداد میں موجودہیں۔ جو ہٹلر مودی کے آر ایس ایس کے ہندوتوا کے ایجنڈے کے خلاف ہیں اور سیکولرازم کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی فکر نہ کریں صرف پاکستان کی معیشت خراب ہے۔بھارت کی معیشت بھی خراب ہے۔ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان، مثل مدینہ ریاست کو جنگ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ مسلمان جنگ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ مگر جب جنگ مسلط کی جا ئے تو مردانہ وار جنگ کی جاتی ہے۔ بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کی ہوئی ہے۔ صرف پاکستان نے اپنے دفاع میں کاروائی کرنی ہے۔ پہلی ہی کاروائی پرانصاف پسند ہندو بھارتی حکمرانوں کو صلح پر مجبور کریں گے۔ اسلام: پر امن اور سلامتی والا دین ہے اگر بھارت صلح کی بات کریگا تو پاکستان کا مان لینا چاہیے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان